نیتا جی سبھاش چندر بوس 23 جنوری سنہ 1897 کو ریاست اڑیسہ کے ضلع کٹک کے ایک بنگالی کنبہ میں پیدا ہوئے تھے۔
بوس کے والد کا نام 'جانکی ناتھ بوس' تھا۔ وہ پیشے سے وکیل تھے جبکہ ان کی والدہ کا نام 'پربھاوتی' تھا، سبھاش چندر بوس کے والدین کے 14 بچے تھے جن میں چھ بیٹیاں اور آٹھ بیٹے شامل تھے۔
نیتاجی کے یوم پیدائش کو ملک میں 'یوم محبت' کے طور پر منایا جاتا ہے۔ نیتا جی نے عوام میں قومی یکجہتی، قربانیوں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا جذبہ پیدا کیا، ہم آج نیتاجی سبھاش چندر بوس کا 125واں یوم پیدائش منا رہے ہیں۔
بوس ملک کی تحریک آزادی کے نمایاں رہنما تھے انہوں نے عوام میں قومی یکجہتی، قربانیوں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا جذبہ پیدا کیا۔
نیتاجی نے دوسری جنگ عظیم کے دوران برطانوی فوج کے خلاف الائنس آرمی تشکیل دینے کے لیے بھارتیہ قومی فوج کی قیادت کی۔
واضح رہے کہ ریاست مغربی بنگال میں نیتاجی سبھاش چندر بوس کے یوم پیدائش پر عام تعطیل رہتی ہے۔
نیتاجی کی ابتدائی تعلیم کٹک کے ایک مقامی سکول سے ہوئی تھی اور جنوری سنہ 1902 میں ان کے والدین نے کٹک کے پروٹسٹنٹ یورپی اسکول میں داخلہ کرایا، جو موجودہ اسٹیورٹ ہائی سکول کے طور پر جانا جاتا ہے۔
انہوں نے 1913 میں میٹرک کے امتحان میں دوسرا مقام حاصل کیا اور جلد ہی انہیں پرسیڈینسی کالج میں داخلہ مل گیا لیکن کالج انتظامیہ نے پروفیسر اوٹین کے بھارت مخالف تبصروں کے پیش نظر بوس کے ذریعے کیے گئے حملے کے بعد انہیں کالج سے نکال کردیا۔
اس کے بعد انہوں نے سنہ 1918 میں کولکاتا یونیورسٹی کے سکاٹش چرچ کالج میں داخلہ لیا اور فلسفہ میں بی اے کیا۔
نیتا جی سبھاش چندر بوس سنہ 1919 میں بھارت چھوڑ کر انگلینڈ چلے گئے اور اپنے والد سے وعدہ کیا کہ وہ بھارتی سول سروس (آئی سی ایس) امتحان میں شرکت کریں گے، اور وہ کیمبرج کے فٹز ولیم کالج میں تعلیم حاصل کرنے لگے۔
سبھاش چندر بوس آئی سی ایس امتحان میں چوتھے نمبر پر رہے لیکن وہ غیر ملکی حکومت کے تحت کام نہیں کرنا چاہتے تھے۔
انہوں نے 23 اپریل 1921 کو اپنی سول سروس ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور بھارت واپس آگئے۔
نیتا جی سبھاش چندر بوس نے اخبار سوراج کا آغاز کیا اور بنگال کی ریاستی کانگریس کمیٹی کے لیے انتخابی مہم چلائی۔
وہ تحریک آزادی میں شامل ہوئے اور کانگریس پارٹی کے رکن بن گئے تاہم بوس کے مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو جیسی نمایاں شخصیات سے نظریاتی اختلافات تھے۔
خیال رہے کہ وہ سنہ 1938 میں کانگریس پارٹی کے صدر بنے، لیکن گاندھی اور پارٹی ہائی کمان کے مابین اختلافات کے بعد انہیں باہر کردیا گیا۔
مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے طریقوں کے بارے میں ان کا مختلف نظریہ تھا اور وہ نوآبادیاتی حکمرانوں کے خلاف جنگ لڑنا چاہتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایک جاپانی پن ڈبّی تک پہنچنے کے لیے ربڑ کی ڈِنگی میں چار سو میل سفر کیا اور اس سے ٹوکیو گئے۔ جاپان میں ان کا پرتپاک خیرمقدم کیا گیا اور انہیں بھارتی فوج کا سربراہ قرار دیا گیا جس میں سنگاپور اور دیگر مشرقی علاقوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً 40 ہزار فوجی شامل تھے۔
ان فوجیوں کو ایک اور عظیم انقلابی رَش بہاری بوس نے متحد کیا تھا اور رش بہاری نے اسے نیتا جی سبھاش چندر بوس کے حوالے کیا جس کے بعد نیتا جی نے اسے انڈین نیشنل آرمی (آئی این اے) کہا۔
نیتا جی کولکاتا کی اپنی رہائش گاہ سے فرار ہوئے اور کابل کے راستے ماسکو پہنچ گئے، جہاں انہیں امید تھی کہ روس بھارت میں مقبول ہونے کے لیے ان کے منصوبوں کی حمایت کرے گا لیکن بوس کو سوویتوں کا ردعمل مایوس کن ملا۔
ماسکو کے بعد وہ جرمنی پہنچ گئے جہاں انہوں نے ایڈم وان ٹروٹ زو سولز کے تحت بھارت کے خصوصی بیورو میں شمولیت اختیار کی، جو جرمنی کے زیر اہتمام آزاد ہند ریڈیو پر نشر کرنے کا ذمہ دار تھا۔
انہوں نے برلن میں فری انڈیا سینٹر کا قیام کیا، اور انہوں نے جنگ میں شامل بھارتی قیدیوں میں سے بھارتی فوج کے تقریباً 4500 فوجیوں سے مل کر اس کی بنیاد رکھی۔
آزاد ہند ریڈیو کے ذریعہ چھ جولائی 1944 کو سنگاپور سے نشر ہونے والی ایک تقریر میں بوس نے مہاتما گاندھی کو بابائے قوم کی حیثیت سے مخاطب کیا اور جنگ کے لیے ان کی نیک تمنائیں طلب کیں۔
خیال رہے کہ 18 اگست سنہ 1945 کو نیتا جی ٹوکیو (جاپان) جاتے ہوئے تائیوان کے قریب ہوائی حادثے میں ہلاک ہوگئے۔
دسمبر 1921 میں پرنس آف ویلز کی بھارت دورہ کے موقع پر منعقدہ تقریب کا بائیکاٹ کرنے پر نیتا جی کو گرفتار کیا گیا اور جیل بھیج دیا گیا۔
نیتا جی کو 1924 میں کولکاتا میونسپل کارپوریشن کا چیف ایگزیکٹو آفیسر مقرر کیا گیا تھا اس کے بعد نیتا جی کو میانمار بھیجا گیا، کیوں کہ ان پر خفیہ انقلابی تحریکوں سے تعلقات ہونے کا شبہ تھا۔
نیتا جی سنہ 1927 میں برما سے واپس آئے اور بنگال کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔
سنہ 1938 میں نیتا جی بھارتی نیشنل کانگریس کے صدر منتخب ہوئے۔
سنہ 1939 میں مہاتما گاندھی اور کانگریس ہائی کمان کے مابین اختلافات کے سبب نیتا جی کو کانگریس کی قیادت سے ہٹا دیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ 26 جنوری 1941 کو نیتا جی کولکاتا کی رہائش گاہ سے فرار ہوگئے اور اپریل میں کابل اور ماسکو کے راستے جرمنی پہنچ گئے۔
واضح رہے کہ نیتا جی سبھاش چندر بوس کی شادی سنہ 1937 میں ایملی شینکل سے ہوئی تھی۔