نئی دہلی: راجیہ سبھا میں بجٹ اجلاس کے چوتھے دن ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمان نے ڈبلیو ایچ او کے نقشے میں جموں و کشمیر کو پاکستان کا حصہ ظاہر کرنے کا معاملہ اٹھایا۔ ٹی ایم سی ایم پی شانتنو سین نے جموں و کشمیر کو پاکستان کا حصہ بتانے پر اعتراض کیاہے۔ WHO shows Jammu and Kashmir as part of Pakistan بتادیں کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی طرف سے جاری کردہ نقشے میں اروناچل پردیش کو الگ حصے کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے غلط نقشے کا معاملہ اٹھاتے ہوئے شانتنو سین نے مرکزی حکومت سے اس پر مناسب قدم اٹھانے کا مطالبہ کیا۔
جمعرات کے روز جب ترنمول کانگریس کے شانتنو سین نے ایوان بالا میں وقفہ صفر کے دوران یہ معاملہ اٹھایا تو چیئرمین ایم وینکیا نائیڈو نے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کو ہدایت دی کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ضروری اقدامات کریں۔ سین نے کہا کہ ایک کووڈ واریئرز کے طور پر وہ اکثر بین الاقوامی اعدادوشمار جاننے کے لیے کووڈ-19 پر ڈبلیو ایچ او کی ویب سائٹ پر جاتے ہیں، لیکن اس وقت انہیں انتہائی حیرت ہوئی جب انہوں نے جموں و کشمیر کو پاکستان کا اروناچل پردیش کو الگ حصہ کے طور پر دیکھایا گیا۔'
![who map jammu kashmir arunachal tmc mp santanu sen questions centre](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/14360497_jk.jpg)
انہوں نے کہاکہ '30 جنوری کو، کووڈ۔19 کے تعلق سے جب میں ڈبلیو ایچ او ڈاٹ آئی این ٹی پر دیکھ رہا تھا، تو میں نے پایا کہ بھارت کا نقشہ نیلے رنگ میں دکھایا گیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جموں و کشمیر کا رنگ مختلف دکھایا گیا۔ جب میں نیلے حصے پر کلک کر رہا تھا تو یہ بھارت کے اعداد و شمار دکھا رہا تھا لیکن جب میں نے دوسرے رنگ (جموں و کشمیر) پر کلک کیا تو وہ پاکستان کے اعداد و شمار دکھا رہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں اس وقت اور بھی حیرت ہوئی جب جموں و کشمیر کے ایک حصے کو مختلف رنگ میں دکھایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ 'جموں و کشمیر کے ایک حصے کے اندر کلک کرنے پر وہ چین کے اعداد و شمار بتا رہے تھے۔ یہی نہیں میں نے اس نقشے میں یہ بھی دیکھا کہ اروناچل پردیش کو بھی الگ حصے کے طور پر دکھایا گیا ہے۔'
سین نے کہا کہ حکومت کو اس معاملے میں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ "خاص طور پر جب ہماری حکومت اپنے ہی وزراء اور اپوزیشن لیڈروں، خاص طور پر ہماری پارٹی کے رہنما اور جنرل سکریٹری ابھیشیک بنرجی کے خلاف جاسوسی کے لیے پیگاسس کو فعال طور پر خرید رہی ہے۔"
بتا دیں کہ' 31 جنوری کو شانتنو نے ٹوئٹ کرکے وزارت داخلہ سے ڈبلیو ایچ او کے غلط نقشے کا نوٹس لینے کی اپیل کی تھی۔ قابل ذکر ہے کہ گزشتہ برس (2021) میں مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ کو مطلع کیا تھا کہ بھارت کے نقشے کی غلط تصویر کشی کے معاملے کو ڈبلیو ایچ او کے ساتھ اعلیٰ سطح پر سختی اعتراض سے اٹھایا گیا تھا۔ بھارت کے اعتراض کے بعد ڈبلیو ایچ او نے اپنے پورٹل پر ڈس کلیمر ڈال دیا تھا۔
غور طلب ہے کہ اس سے قبل بھی بعض مواقع پر بھارت کے غلط نقشے کا معاملہ سامنے آ چکا ہے۔ جون 2021 میں مائیکرو بلاگنگ سائٹ ٹوئٹر پر بھارت کا غلط نقشہ دکھایا گیا تھا۔ جب بھارت نے اس پر سخت اعتراض کیا تو ٹوئٹر نے اپنی ویب سائٹ سے بھارت کا غلط نقشہ ہٹا دیا۔
اس سے قبل نومبر 2020 میں بھی ٹوئٹر غلط نقشہ دکھانے پر تنازعات میں گھرا تھا۔ اس سے قبل اکتوبر 2020 میں، اجے ساہنی، سکریٹری، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) نے ٹوئٹر پر بھارت کے غلط نقشے کے معاملے پر ٹوئٹر کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) جیک ڈورسی کو سخت الفاظ میں خط لکھا تھا۔ ساہنی نے کہا کہ اس طرح کی کوئی بھی کوشش نہ صرف ٹویٹر کی ساکھ کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ اس سے ٹویٹر کی بطور ذریعہ غیر جانبداری پر بھی شک پیدا ہوتا ہے۔'
حکومت نے کہا تھا کہ ٹویٹر کی طرف سے بھارت کی خودمختاری اور سالمیت کی توہین کرنے کی ہر کوشش ناقابل قبول ہے۔ لیہہ کے علاقے کو بھی ٹوئٹر نے اسے عوامی جمہوریہ چین کے جموں و کشمیر کا حصہ بتایا تھا۔ بھارت نے واضح کیا تھا کہ لیہہ مرکز کے زیر انتظام علاقہ لداخ کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ لداخ اور جموں و کشمیر دونوں بھارت کے اٹوٹ اور لازم و ملزوم حصے ہیں اور بھارت کے آئین کے تحت چلتے ہیں۔