ETV Bharat / bharat

International Conference on Urdu Journalism اردو صحافت پر تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام - اردو صحافت پر تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس

حیدرآباد میں واقع مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں اردو صحافت پر تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ کانفرنس میں ملک بھر سے عملی صحافت اور میڈیا اسٹڈیز سے وابستہ سرکردہ شخصیات نے شرکت کی۔International Conference on Urdu Journalism

اردو صحافت پر تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام
اردو صحافت پر تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام
author img

By

Published : Nov 13, 2022, 10:06 PM IST

Updated : Nov 17, 2022, 3:36 PM IST

حیدرآباد (محمد شاداب عالم): ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں واقع مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں اردو صحافت پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے۔ کانفرنس کا انعقاد بھارت میں اردو صحافت کے دو سو برس مکمل ہونے کے پس منظر میں کیا گیا۔ کانفرنس میں ملک بھر سے عملی صحافت اور میڈیا اسٹڈیز سے وابستہ سرکردہ شخصیات نے شرکت کی، جنہوں نے اردو صحافت کے ماضی، حال اور مستقبل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ International Conference on Urdu Journalism

اردو صحافت پر تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام

خطبہ استقبالیہ میں پرفیسر احتشام الحق نے بتایا کہ 27 مارچ 1822ء کو اردو کا پہلا اخبار جام جہاں نما شہر کولکاتا سے جاری ہوا تھا۔ انہوں نے کہاکہ آج کل ایک تاثر عام ہےکہ اردو صحافت کو مسلمانوں کا بتایاجاتا ہے، جو بالکل غلط ہے، جب کہ اردو اخبار کے پہلے ناشر اور ایڈیٹر دونوں غیر مسلم تھے۔ جام جہاں ہری ہر دت اور مدیر منشی سدا سکھ رائے تھے۔

اس موقع پر کلیدی خطبہ دیتے ہوئے اردو کے سینیئر صحافی حسن کمال نے کہا کہ فنڈنگ، انفراسٹرکچر، عملہ اور خاص طور پر ایک چھوٹے سے اردو اخبار کو چلانے کے لیے اشتہارات پر انحصار کی ضرورت اکثر اردو اخبارات شروع کرنے کے خواہاں کاروباری افراد کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔

معرف صحافی حسن کمال نے کہا کہ اردو کی دو سو سالہ صحافت پُر تابناک ہے۔ انہوں نے کہاکہ کسی بھی زبان میں اخبار نکالنا اور چلانا آسان نہیں، ایک اخبار کو چلانے کے لیے سالانہ تقریباً کروڑوں کا خرچ آتا ہے۔ جو بغیر کسی امداد یا اشتہار کے بغیر ممکن ہے۔ اسی لیے ایک وقت تک اردو زبان میں صحافتی انجام دینا مشکل امر رہا۔ لیکن مستقبل روشن اس معنی پر ہے کہ یہ دور ڈیجیٹل کا دور ہے جہاں محدود اثاثے کے اردو زبان میں صحافتی فرائض انجام دیے جاسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہاکہ اگر کوئی یہ کہے کہ اردو زبان ختم ہورہی ہے تو یہ جاننے کی ضرورت ہے، بھارت میں سبھی مقامی زبان کو خطرہ لاحق ہے۔ کیوں اب اکتسابی زبان مقامی نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان مقامی زبان سے نابلد ہورہے ہیں۔ بہرکیف اردو ہندوستان کی زبان ہے اس زبان کے ذریعے صحافتی خدمات انجام جا سکتا ہے۔

شکیل حسن شمشی اپنے خطاب میں طلبہ کو مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ اگر آپ اردو صحافت کو اپنا پیشہ وارانہ زندگی میں شامل کرنا چاہتے تو آپ کو صبر و تحمل سے کام لینا ہوگا۔ کیوں کہ اردو زبان میں صحافتی خدمات انجام دیتے ہوئے عیش و عشرت کی زندگی گزارنا مشکل ہے۔ انہوں نے طلبہ کو ڈیجیٹل ذرائع کا استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔

یہ بھی پڑھیں: Hasan Kamal on Urdu newspapers اشتہارات پر انحصار اردو اخبارات کے لیے رکاوٹ ، حسن کمال

انہوں نے کہاکہ آج کے دور میں جہاں تھوڑی بہت سمجھ ہے، وہ بھی صحافی بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں طلبہ کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ ان چیلنجز کو سمجھ کر صحافتی خدمات انجام دیں۔ انقلاب ممبئی کے مدیر شاہد لطیف نے کہاکہ ہم دو سو برس بول کر آگے نکل جاتے ہیں، جب کہ اگر ہم اس پر غور کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس دو سو سالہ تاریخ میں اردو صحافت نے جنگ آزادی سمیت سماجی فلاح و بہبود کے لیے بے انتہا خدمات انجام دیں۔

حیدرآباد (محمد شاداب عالم): ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد میں واقع مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں اردو صحافت پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے۔ کانفرنس کا انعقاد بھارت میں اردو صحافت کے دو سو برس مکمل ہونے کے پس منظر میں کیا گیا۔ کانفرنس میں ملک بھر سے عملی صحافت اور میڈیا اسٹڈیز سے وابستہ سرکردہ شخصیات نے شرکت کی، جنہوں نے اردو صحافت کے ماضی، حال اور مستقبل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ International Conference on Urdu Journalism

اردو صحافت پر تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام

خطبہ استقبالیہ میں پرفیسر احتشام الحق نے بتایا کہ 27 مارچ 1822ء کو اردو کا پہلا اخبار جام جہاں نما شہر کولکاتا سے جاری ہوا تھا۔ انہوں نے کہاکہ آج کل ایک تاثر عام ہےکہ اردو صحافت کو مسلمانوں کا بتایاجاتا ہے، جو بالکل غلط ہے، جب کہ اردو اخبار کے پہلے ناشر اور ایڈیٹر دونوں غیر مسلم تھے۔ جام جہاں ہری ہر دت اور مدیر منشی سدا سکھ رائے تھے۔

اس موقع پر کلیدی خطبہ دیتے ہوئے اردو کے سینیئر صحافی حسن کمال نے کہا کہ فنڈنگ، انفراسٹرکچر، عملہ اور خاص طور پر ایک چھوٹے سے اردو اخبار کو چلانے کے لیے اشتہارات پر انحصار کی ضرورت اکثر اردو اخبارات شروع کرنے کے خواہاں کاروباری افراد کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔

معرف صحافی حسن کمال نے کہا کہ اردو کی دو سو سالہ صحافت پُر تابناک ہے۔ انہوں نے کہاکہ کسی بھی زبان میں اخبار نکالنا اور چلانا آسان نہیں، ایک اخبار کو چلانے کے لیے سالانہ تقریباً کروڑوں کا خرچ آتا ہے۔ جو بغیر کسی امداد یا اشتہار کے بغیر ممکن ہے۔ اسی لیے ایک وقت تک اردو زبان میں صحافتی انجام دینا مشکل امر رہا۔ لیکن مستقبل روشن اس معنی پر ہے کہ یہ دور ڈیجیٹل کا دور ہے جہاں محدود اثاثے کے اردو زبان میں صحافتی فرائض انجام دیے جاسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہاکہ اگر کوئی یہ کہے کہ اردو زبان ختم ہورہی ہے تو یہ جاننے کی ضرورت ہے، بھارت میں سبھی مقامی زبان کو خطرہ لاحق ہے۔ کیوں اب اکتسابی زبان مقامی نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان مقامی زبان سے نابلد ہورہے ہیں۔ بہرکیف اردو ہندوستان کی زبان ہے اس زبان کے ذریعے صحافتی خدمات انجام جا سکتا ہے۔

شکیل حسن شمشی اپنے خطاب میں طلبہ کو مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ اگر آپ اردو صحافت کو اپنا پیشہ وارانہ زندگی میں شامل کرنا چاہتے تو آپ کو صبر و تحمل سے کام لینا ہوگا۔ کیوں کہ اردو زبان میں صحافتی خدمات انجام دیتے ہوئے عیش و عشرت کی زندگی گزارنا مشکل ہے۔ انہوں نے طلبہ کو ڈیجیٹل ذرائع کا استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔

یہ بھی پڑھیں: Hasan Kamal on Urdu newspapers اشتہارات پر انحصار اردو اخبارات کے لیے رکاوٹ ، حسن کمال

انہوں نے کہاکہ آج کے دور میں جہاں تھوڑی بہت سمجھ ہے، وہ بھی صحافی بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں طلبہ کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ ان چیلنجز کو سمجھ کر صحافتی خدمات انجام دیں۔ انقلاب ممبئی کے مدیر شاہد لطیف نے کہاکہ ہم دو سو برس بول کر آگے نکل جاتے ہیں، جب کہ اگر ہم اس پر غور کریں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس دو سو سالہ تاریخ میں اردو صحافت نے جنگ آزادی سمیت سماجی فلاح و بہبود کے لیے بے انتہا خدمات انجام دیں۔

Last Updated : Nov 17, 2022, 3:36 PM IST

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.