ETV Bharat / bharat

کیا کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا ؟

author img

By

Published : Aug 5, 2021, 7:45 PM IST

Updated : Aug 5, 2021, 7:53 PM IST

کشمیری پنڈتوں کی بازآبادکاری اور گھر واپسی کا مسئلہ انتخابات کے دوران ہمیشہ سیاسی جماعتوں کا ایجنڈا رہا ہے۔ لیکن آج یہ مسئلہ پیچیدہ بن گیا ہے اور وادی سے باہر مقیم کشمیری پنڈتوں کے لیے گھر واپسی ان کا سب سے حساس مسئلہ بنا ہوا ہے۔

کیا کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا ؟
کیا کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا ؟

نوے (90) کی دہائی میں کشمیر میں مسلح شورش شروع ہونے کے بعد کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی شروع ہوئی تھی۔ سرکاری اعداد شمار کے مطابق چند برسوں کے اندر 64 ہزار 951 پنڈت خاندانوں نے ہجرت کرکے جموں سمیت ملک کی مختلف ریاستوں میں سکونت اختیار کی۔

کیا کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا

اُس وقت کشمیری پنڈتوں کی ایک تعداد ایسی بھی تھی جنہوں نے ہر حال میں وادی میں ہی رہنے کو ترجیح دیا، جن کی تعداد تقریبا 5 ہزار بتائی جا رہی ہے۔ لیکن کشمیری پنڈتوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی ملک کے مختلف شہروں میں رہائش پذیر ہیں، جس پر تقریبا 31 برس گزر گئے ہیں، برسوں گزر جانے کے بعد بھی حکومت کے لیے یہ ممکن نہ ہو سکا کہ وہ دوبارہ ان تمام کشمیری پنڈتوں کو جو یہاں سے ہجرت کر کے دیگر ریاستوں میں مقیم ہیں انہیں یہاں لاکر پھر سے آباد کرسکیں۔

کشمیری پنڈتوں کا کہنا ہے کہ آج تک جو بھی حکومتیں یہاں آئی ہیں، انہوں نے کشمیری پنڈتوں کی بازآبادکاری اور گھر واپسی کو لے کر صرف کھوکھلے وعدے کیے ہیں۔ سنہ 2004 اور 2008 میں کشمیری پنڈتوں کی وطن واپسی اور بازآباد کاری کے لئے منموہن سنگھ کی زیر قیادت اس وقت کی یو پی اے حکومت نے 1 ہزار 618 کروڑ روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا۔

اس کے بعد بی جے پی نے سنہ 2014 انتخابات کے منشور میں کشمیری پنڈتوں کی سلامتی اور معاشی استحکام کے ساتھ وطن واپسی کا یقین دلایا تھا۔ سنہ 2019 میں ہوئے دوبارہ انتخابات سے قبل بھی بی جے پی کا یہی انتخابی منشور تھا کہ وہ کشمیری پنڈتوں کی باوقار اور بحفاظت واپسی کو یقینی بنائے گی۔ سابق وزیر خزانہ آنجہانی ارون جیٹلی نے 2014 کے مرکزی بجٹ میں کشمیری پنڈتوں کی بازآبادکاری کے لئے 500 کروڑ روپے کے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ سنہ2017 میں مرکزی وزیر راج ناتھ سنگھ نے سری نگر میں پنڈتوں کے لئے 6 ہزار ٹرانزٹ رہائش گاہیں تعمیر کرنے کے حکومت کے فیصلے کا اعلان کیا تھا۔تاہم اسے ابھی تک عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔

مرکزی وزیر کے اعلان کے بعد ایل جی انتظامیہ کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کشمیری پنڈتوں کی واپسی اور باز آبادکاری کے لئے 6 ہزار نوکریاں اور 6 ہزار نئے گھر تعمیر کئے جائیں گے۔ اس بیان پر کشمیری پنڈتوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سوال اُٹھایا تھا کہ یہ فیصلہ منموہن سنگھ نے سال 2009 میں کیا تھا اور اس میں نیا کچھ نہیں ہے۔

تنقید کے بعد پھر ایل جی کا ایک نیا بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ کشمیری پنڈتوں کی واپسی اور بازآباد کاری کے حوالے سے جو بڑے اور نئے فیصلے لئے جائیں گے ان کے متعلق کشمیری پنڈتوں نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ جس کے بعد کشمیری پنڈتوں کی مختلف تنظیموں نے ایل جی کے اس بیان کا خیر مقدم کیا۔

کشمیری پنڈتوں کی بازآبادکاری اور گھر واپسی کا مسئلہ انتخابات کے دوران ہمیشہ سیاسی جماعتوں کا ایجنڈا رہا ہے۔ لیکن آج یہ مسئلہ پیچیدہ بن گیا ہے اور وادی سے باہر مقیم کشمیری پنڈتوں کے لیے گھر واپسی ان کا سب سے حساس مسئلہ بنا ہوا ہے۔

کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی کے حوالے سے لوگ مختلف رائے رکھتے ہیں، بعض کہتے ہیں کہ پنڈتوں کا نوجوان طبقہ جن کی پیدائش کشمیر سے باہر ہوئی ان کا کشمیر سے زیادہ تعلق نہیں ہے اور ان کے لیے گھر واپسی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بعضوں کا یہ کہنا ہے کہ جو پنڈت ایسی عمر کے ہیں جنہوں نے کشمیر میں کچھہ وقت گزارا ہے یا جنہوں نے مسلح شورش کا وقت جھیلا ہے وہ گھر واپسی چاہتے ہیں۔

کشمیری پنڈتوں کی کچھ تنظیموں نے مرکزی حکومت سے ان کے لئے علیحدہ اسمارٹ سٹی بنانے کی تجویز پیش کی تھی، تاہم کشمیری مسلمانوں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس تجویز کی نکتہ چینی کی گئی، یو پی اے دور حکومت میں ایک پہل شروع کی گئی تھی جس میں وزیر اعظم پیکج کے تحت تقریباً 1,500 کشمیری پنڈت کشمیر واپس ہوئے۔ انہیں سرکاری نوکریاں فراہم کی گئیں ان کے لئے سرکاری رہائش گاہیں(کوارٹرز) تعمیر کئے گئے۔ جنہیں ٹرانزٹ کیمپس، یا مائگرنٹ پنڈت کالونیز بھی کہا جاتا ہے۔

پی ایم پیکیج کے تحت وادی میں نوکری کرنے والے پنڈتوں نے انتظامیہ سے کئی بار مطالبہ کیا تھا کہ انہیں مستقل طور پر جموں ٹرانسفر کیا جائے، خاص کر سنہ 2016 میں جاری نا مساعد حالات کے دوران جب عسکریت پسند کمانڈر بُرہان وانی کی ہلاکت کے بعد وادی میں حالات پیچیدہ ہو ئے تھے۔اپنے اس مطالبے کے پیش نظر وہ ملازمین مسلسل کئی روز تک سراپا احتجاج بھی تھے۔

پی ایم پیکیج کے تحت ضلع کولگام کے ویسو قاضی گنڈ، مائگرنٹ کشمیری پنڈت کالونی میں مقیم کشمیری پنڈتوں نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ان کی بازآبادکاری اور انہیں باوقار طریقہ سے یہاں دوبارہ بسانے کے سلسلہ میں صرف کھوکھلے دعوے کیے گئے اس ضمن میں آج تک زمینی سطح پر خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

ان کا کہنا ہے کہ 'خستہ حال اور تنگ کوارٹرز میں رہ کر ان کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔ کوارٹروں میں جگہ کی گنجائش کم ہونے اور بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی سے انہیں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کئی بار نئے فلیٹس کے تعلق سے اپنی آواز بلند کی لیکن ہر بار انہیں نظر انداز کیا گیا ماضی میں کئی سرکردہ سیاسی رہنماؤں کے علاوہ ایل جی کے مشیر نے بھی یہاں کا دورہ کیا، اس کے باوجود بھی ان کے مسائل کا ازالہ نہیں کیا گیا'۔

پنڈتوں کا کہنا ہے کہ 'ان باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی کو لے کر کتنی سنجیدہ ہے۔انہوں نے کہا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد موجودہ حکومت نے کئی بار کشمیری پنڈتوں کی بازآبادکاری اور گھر واپسی کے مسائل کو اجاگر کیا۔جس کی گونج پارلیمنٹ میں بھی سنائی دی'۔

مزید پڑھیں: دفعہ 370 کی منسوخی کے دو سال: عمران خان نے ’یکطرفہ‘ فیصلوں کی مذمت کی

تاہم زمینی سطح پر معاملہ ابھی تک جوں کا توں ہے ان کے مطابق کشمیری پنڈتوں کی بازآبادکاری اور گھر واپسی کو لے کر دفعہ 370 کی تنسیخ سے قبل اور اس کے بعد کچھ خاص فرق نظر نہیں آرہا ہے۔ تاہم اب بھی کشمیری پنڈتوں کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ حکومت جلد ہی ان کے دیرینہ مسائل و مطالبات خاص کر گھر واپسی کے بارے میں ایک بڑا قدم اٹھائے گی۔

نوے (90) کی دہائی میں کشمیر میں مسلح شورش شروع ہونے کے بعد کشمیری پنڈتوں کی نقل مکانی شروع ہوئی تھی۔ سرکاری اعداد شمار کے مطابق چند برسوں کے اندر 64 ہزار 951 پنڈت خاندانوں نے ہجرت کرکے جموں سمیت ملک کی مختلف ریاستوں میں سکونت اختیار کی۔

کیا کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا

اُس وقت کشمیری پنڈتوں کی ایک تعداد ایسی بھی تھی جنہوں نے ہر حال میں وادی میں ہی رہنے کو ترجیح دیا، جن کی تعداد تقریبا 5 ہزار بتائی جا رہی ہے۔ لیکن کشمیری پنڈتوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی ملک کے مختلف شہروں میں رہائش پذیر ہیں، جس پر تقریبا 31 برس گزر گئے ہیں، برسوں گزر جانے کے بعد بھی حکومت کے لیے یہ ممکن نہ ہو سکا کہ وہ دوبارہ ان تمام کشمیری پنڈتوں کو جو یہاں سے ہجرت کر کے دیگر ریاستوں میں مقیم ہیں انہیں یہاں لاکر پھر سے آباد کرسکیں۔

کشمیری پنڈتوں کا کہنا ہے کہ آج تک جو بھی حکومتیں یہاں آئی ہیں، انہوں نے کشمیری پنڈتوں کی بازآبادکاری اور گھر واپسی کو لے کر صرف کھوکھلے وعدے کیے ہیں۔ سنہ 2004 اور 2008 میں کشمیری پنڈتوں کی وطن واپسی اور بازآباد کاری کے لئے منموہن سنگھ کی زیر قیادت اس وقت کی یو پی اے حکومت نے 1 ہزار 618 کروڑ روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا۔

اس کے بعد بی جے پی نے سنہ 2014 انتخابات کے منشور میں کشمیری پنڈتوں کی سلامتی اور معاشی استحکام کے ساتھ وطن واپسی کا یقین دلایا تھا۔ سنہ 2019 میں ہوئے دوبارہ انتخابات سے قبل بھی بی جے پی کا یہی انتخابی منشور تھا کہ وہ کشمیری پنڈتوں کی باوقار اور بحفاظت واپسی کو یقینی بنائے گی۔ سابق وزیر خزانہ آنجہانی ارون جیٹلی نے 2014 کے مرکزی بجٹ میں کشمیری پنڈتوں کی بازآبادکاری کے لئے 500 کروڑ روپے کے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ سنہ2017 میں مرکزی وزیر راج ناتھ سنگھ نے سری نگر میں پنڈتوں کے لئے 6 ہزار ٹرانزٹ رہائش گاہیں تعمیر کرنے کے حکومت کے فیصلے کا اعلان کیا تھا۔تاہم اسے ابھی تک عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔

مرکزی وزیر کے اعلان کے بعد ایل جی انتظامیہ کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کشمیری پنڈتوں کی واپسی اور باز آبادکاری کے لئے 6 ہزار نوکریاں اور 6 ہزار نئے گھر تعمیر کئے جائیں گے۔ اس بیان پر کشمیری پنڈتوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے سوال اُٹھایا تھا کہ یہ فیصلہ منموہن سنگھ نے سال 2009 میں کیا تھا اور اس میں نیا کچھ نہیں ہے۔

تنقید کے بعد پھر ایل جی کا ایک نیا بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ کشمیری پنڈتوں کی واپسی اور بازآباد کاری کے حوالے سے جو بڑے اور نئے فیصلے لئے جائیں گے ان کے متعلق کشمیری پنڈتوں نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ جس کے بعد کشمیری پنڈتوں کی مختلف تنظیموں نے ایل جی کے اس بیان کا خیر مقدم کیا۔

کشمیری پنڈتوں کی بازآبادکاری اور گھر واپسی کا مسئلہ انتخابات کے دوران ہمیشہ سیاسی جماعتوں کا ایجنڈا رہا ہے۔ لیکن آج یہ مسئلہ پیچیدہ بن گیا ہے اور وادی سے باہر مقیم کشمیری پنڈتوں کے لیے گھر واپسی ان کا سب سے حساس مسئلہ بنا ہوا ہے۔

کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی کے حوالے سے لوگ مختلف رائے رکھتے ہیں، بعض کہتے ہیں کہ پنڈتوں کا نوجوان طبقہ جن کی پیدائش کشمیر سے باہر ہوئی ان کا کشمیر سے زیادہ تعلق نہیں ہے اور ان کے لیے گھر واپسی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بعضوں کا یہ کہنا ہے کہ جو پنڈت ایسی عمر کے ہیں جنہوں نے کشمیر میں کچھہ وقت گزارا ہے یا جنہوں نے مسلح شورش کا وقت جھیلا ہے وہ گھر واپسی چاہتے ہیں۔

کشمیری پنڈتوں کی کچھ تنظیموں نے مرکزی حکومت سے ان کے لئے علیحدہ اسمارٹ سٹی بنانے کی تجویز پیش کی تھی، تاہم کشمیری مسلمانوں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس تجویز کی نکتہ چینی کی گئی، یو پی اے دور حکومت میں ایک پہل شروع کی گئی تھی جس میں وزیر اعظم پیکج کے تحت تقریباً 1,500 کشمیری پنڈت کشمیر واپس ہوئے۔ انہیں سرکاری نوکریاں فراہم کی گئیں ان کے لئے سرکاری رہائش گاہیں(کوارٹرز) تعمیر کئے گئے۔ جنہیں ٹرانزٹ کیمپس، یا مائگرنٹ پنڈت کالونیز بھی کہا جاتا ہے۔

پی ایم پیکیج کے تحت وادی میں نوکری کرنے والے پنڈتوں نے انتظامیہ سے کئی بار مطالبہ کیا تھا کہ انہیں مستقل طور پر جموں ٹرانسفر کیا جائے، خاص کر سنہ 2016 میں جاری نا مساعد حالات کے دوران جب عسکریت پسند کمانڈر بُرہان وانی کی ہلاکت کے بعد وادی میں حالات پیچیدہ ہو ئے تھے۔اپنے اس مطالبے کے پیش نظر وہ ملازمین مسلسل کئی روز تک سراپا احتجاج بھی تھے۔

پی ایم پیکیج کے تحت ضلع کولگام کے ویسو قاضی گنڈ، مائگرنٹ کشمیری پنڈت کالونی میں مقیم کشمیری پنڈتوں نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ان کی بازآبادکاری اور انہیں باوقار طریقہ سے یہاں دوبارہ بسانے کے سلسلہ میں صرف کھوکھلے دعوے کیے گئے اس ضمن میں آج تک زمینی سطح پر خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

ان کا کہنا ہے کہ 'خستہ حال اور تنگ کوارٹرز میں رہ کر ان کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔ کوارٹروں میں جگہ کی گنجائش کم ہونے اور بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی سے انہیں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کئی بار نئے فلیٹس کے تعلق سے اپنی آواز بلند کی لیکن ہر بار انہیں نظر انداز کیا گیا ماضی میں کئی سرکردہ سیاسی رہنماؤں کے علاوہ ایل جی کے مشیر نے بھی یہاں کا دورہ کیا، اس کے باوجود بھی ان کے مسائل کا ازالہ نہیں کیا گیا'۔

پنڈتوں کا کہنا ہے کہ 'ان باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی کو لے کر کتنی سنجیدہ ہے۔انہوں نے کہا کہ دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد موجودہ حکومت نے کئی بار کشمیری پنڈتوں کی بازآبادکاری اور گھر واپسی کے مسائل کو اجاگر کیا۔جس کی گونج پارلیمنٹ میں بھی سنائی دی'۔

مزید پڑھیں: دفعہ 370 کی منسوخی کے دو سال: عمران خان نے ’یکطرفہ‘ فیصلوں کی مذمت کی

تاہم زمینی سطح پر معاملہ ابھی تک جوں کا توں ہے ان کے مطابق کشمیری پنڈتوں کی بازآبادکاری اور گھر واپسی کو لے کر دفعہ 370 کی تنسیخ سے قبل اور اس کے بعد کچھ خاص فرق نظر نہیں آرہا ہے۔ تاہم اب بھی کشمیری پنڈتوں کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ حکومت جلد ہی ان کے دیرینہ مسائل و مطالبات خاص کر گھر واپسی کے بارے میں ایک بڑا قدم اٹھائے گی۔

Last Updated : Aug 5, 2021, 7:53 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.