مرکزی حکومت کے نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج مسلسل 22 دنوں سے دہلی کے بارڈر پر جاری ہے۔ کسانوں کی تیاریوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مظاہرہ کافی لمبے وقت تک چل سکتا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت تینوں زرعی قوانین کو واپس لے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ جس دن حکومت تینوں قوانین کو واپس لے گی ہم احتجاج ختم کر دیں گے۔
حکومت جھکنے کو تیار نہیں ہے اور ایسی صورتحال میں کاشتکار بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس دوران زرعی قوانین پر حکومت اور کسانوں کے مابین تعطل برقرار ہے۔ اب اس معاملے کے متعلق آج سپریم کورٹ میں سماعت ہونی ہے۔ عدالت ڈی ایم کے کے تروچی سیوا، آر جے ڈی کے منوج جھا اور چھتیس گڑھ کانگریس کے راکیش وشنو کی درخواست پر سماعت کرے گا۔ ان کا مطالبہ ہے کہ زرعی قوانین کو منسوخ کیا جائے۔
اس سے قبل بدھ کے روز سپریم کورٹ میں کسانوں کی تحریک کے متعلق سماعت ہوئی۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ نے حکومت اور کسانوں کے مابین معاہدہ کرانے کی پہل کی ہے۔ اس کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں دوبارہ سماعت ہونی ہے۔
عدالت عظمی نے بدھ کے روز سماعت کے دوران کہا کہ یہ قومی سطح کا مسئلہ ہے، ایسی صورتحال میں باہمی رضامندی کا ہونا ضروری ہے۔ عدالت نے دہلی اور ملک کے دیگر حصوں کی حدود میں احتجاج کرنے والے کسانوں کی تنظیموں کی فہرست طلب کی، تاکہ اس سے معلوم ہوسکے کہ اس کے متعلق کس سے تبادلہ خیال کیا جانا ہے۔
عدالت نے کہا کہ موجودہ حالات سے ایسا لگتا ہے کہ حکومت اور کسان کے مابین براہ راست اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ حکومت اور کسانوں کے مابین مذاکرات کا کوئی حل نہیں دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے پہل کی ہے۔ اب جمعرات کو ہونے والی سماعت میں یہ واضح ہوجائے گا کہ عدالت جو کمیٹی تشکیل دے رہی ہے اس کا خاکہ کیا ہوگا اور وہ اس مسئلے کو حل کرنے کی طرف کس طرح آگے بڑھے گی۔
عدالت نے بدھ کے روز کہا کہ وہ کسانوں کی تنظیموں کی بات سنے گی اور حکومت سے پوچھا کہ اب تک معاہدہ کیوں نہیں ہوا ہے۔ اب عدالت سے کسان تنظیموں کو نوٹس دیا گیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ اس طرح کے معاملات جلد از جلد حل ہونا چاہئے۔
کسان تحریک کے متعلق مفاد عامہ کی کئی درخواستیں سپریم کورٹ کے سامنے تھیں لیکن اس میں سے کوئی بھی کسان تنظیم کی جانب سے داخل نہیں کی گئی ہے۔ درخواستوں میں مظاہرے کی وجہ سے سڑکیں بند ہونے، کورونا کے بحران اور احتجاج کے حق سے متعلق سوالات اٹھائے گئے تھے۔