ETV Bharat / bharat

ایک شاعر سیریز: ظفر شیرازی کے فرزند محمد اعظم خان سے خاص گفتگو

ای ٹی وی بھارت اردو کی جانب سے 'ایک شاعر' کے نام سے خصوصی پروگرام چلایا جارہا ہے جس میں ملک کے مختلف شہروں سے اردو شعرا، ان کی شاعری اور سفر کے تعلق سے خاص بات چیت کی جاتی ہے۔ ایک شاعر پروگرام کے تحت آج شیراز ہند جونپور کے مشہور و معروف شاعر مرحوم ظفر شیرازی کے شعری سفر کے تعلق سے ان کے فرزند محمد اعظم خان سے خصوصی گفتگو کی گئی۔

ایک شاعر سیریز
ایک شاعر سیریز
author img

By

Published : Aug 26, 2021, 6:25 PM IST

شاعر ظفر شیرازی 1953 میں شاہ گنج تحصیل کے موضع پارہ کمال میں پیدا ہوئے اور گاؤں کے مکتب سے ان کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہوا متعدد اسکولوں سے درجہ بدرجہ تعلیم حاصل کرتے ہوئے انہوں نے شبلی نیشنل پوسٹ گریجویٹ کالج اعظم گڑھ سے اردو ادب سے ایم- اے کی سند حاصل کی اور لکھنؤ یونیورسٹی کے ایل-ایل-بی سبکشن میں داخلہ لیا۔ مگر چند وجوہات کی بنا پر تعلیم مکمل نہ کر سکے۔ وزنامہ قومی آواز دہلی کے کچھ عرصہ تک ایڈیٹر رہے اور بعد میں جونپور کلکٹریٹ کے شعبہ مالیات میں ملازمت اختیار کرلی اور شاہ گنج، مچھلی شہر، بدلا پور، اور جونپور میں ملازمت کی۔

ایک شاعر سیریز

ظفر شیرازی نے شعر وسخن کا آغاز اپنے طالب علمی کے دور میں ہی اپنی خاص فطری ذوق اور عقل سلیم کی رہنمائی میں کیا اور کبھی کبھی اشعار موزوں کرتے رہے لیکن سنہ 1979 میں جب ملازمت کے غرض سے مچھلی شہر آئے تو استاد شاعر سید اختر حسین سروش مچھلی شہری کے حلقہ تلمذ میں شامل ہوکر باضابطہ اپنی شعری سفر کا آغاز کیا۔ ان کا پورا نام ظفر عالم خاں شیرازی تھا اور تخلص 'ظفر' تھا سنہ 2019 میں مختصر علالت کے بعد ان کا انتقال ہوا گیا۔

ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں ظفر شیرازی کے فرزند محمد اعظم خان نے بتایا کہ ظفر شیرازی نے استاد شاعر سروش مچھلی شہری کی زیر سرپرستی اپنی شاعری کے نوک و پلک سنوارے۔ وہ تلخ طبیعت تھے اپنے مشن اور کام کے ساتھ بہت مخلص رہتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ 'ظفر شیرازی جدیدیت و حقیقت کے ساتھ تھے ان کی شاعری میں ایک نیا رنگ تھا وہ اپنی شاعری کے ذریعے سے پیغام دینے کا کام کرتے تھے'۔ انہوں نے بتایا کہ چند دنوں کے اندر ہی ان کا ایک شعری مجموعہ 'کلیات ظفر شیرازی' کے نام سے منظر عام پر آئے گا اس تعلق سے ابھی کام چل رہا ہے'۔

اعظم خان نے بتایا کہ ' میرے علم کے مطابق، ظفر شیرازی نے اس وقت کے وزیراعظم چندر شیکھر کی موجودگی میں اپنا پہلا مشاعرہ بلیا میں پڑھا تھا۔ اس وقت متعدد دیگر بڑی شخصیات بھی وہاں موجود تھیں، ان کے اس شعر کی تمام لوگوں نے پذیرائی کی تھی وہ شعر یہ تھا کہ'۔۔

وفا کا درس دیتے ہو ہمیں کیا

وفا کا باب ہم نے ہی لکھا ہے

معروف نقاد مرحوم شمس الرحمٰن فاروقی نے بھی ان کے اشعار کی تعریف کی تھیں وہ شعر بھی مندرجہ ذیل ہے

یہ شام جو آئی ہے ایک شام بلا بن کر

اس شام کی دیکھیں ہوتی ہے سحر کب تک

خواہان ثمر سو چو اب پیڑ لگانے کی

یہ بوڑھا شجر آخر دیگا بھی ثمر کب تک

وہ گھر جو گرا ڈالا ناپاک حریفوں نے

ہم لوگ بنائیں گے دوبارہ وہ گھر کب تک

مزید پڑھیں: ایک شاعر سیریز: شاعرڈاکٹر الیاس صدیقی سے خصوصی گفتگو

ظفر شیرازی کا شمار جونپور کے استاد شعرا میں کیا جاتا تھا، ان کے اشعار اخبار جرائد و رسائل میں چھپتے رہے ہیں مشاعروں کے انعقاد میں وہ پیش پیش رہتے تھے شہر کے تمام پروگرامز میں ان کی شرکت ہوتی تھی انہیں نعت گوئی و غزل گوئی میں اچھا خاصا ملکہ حاصل تھا۔

شاعر ظفر شیرازی 1953 میں شاہ گنج تحصیل کے موضع پارہ کمال میں پیدا ہوئے اور گاؤں کے مکتب سے ان کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہوا متعدد اسکولوں سے درجہ بدرجہ تعلیم حاصل کرتے ہوئے انہوں نے شبلی نیشنل پوسٹ گریجویٹ کالج اعظم گڑھ سے اردو ادب سے ایم- اے کی سند حاصل کی اور لکھنؤ یونیورسٹی کے ایل-ایل-بی سبکشن میں داخلہ لیا۔ مگر چند وجوہات کی بنا پر تعلیم مکمل نہ کر سکے۔ وزنامہ قومی آواز دہلی کے کچھ عرصہ تک ایڈیٹر رہے اور بعد میں جونپور کلکٹریٹ کے شعبہ مالیات میں ملازمت اختیار کرلی اور شاہ گنج، مچھلی شہر، بدلا پور، اور جونپور میں ملازمت کی۔

ایک شاعر سیریز

ظفر شیرازی نے شعر وسخن کا آغاز اپنے طالب علمی کے دور میں ہی اپنی خاص فطری ذوق اور عقل سلیم کی رہنمائی میں کیا اور کبھی کبھی اشعار موزوں کرتے رہے لیکن سنہ 1979 میں جب ملازمت کے غرض سے مچھلی شہر آئے تو استاد شاعر سید اختر حسین سروش مچھلی شہری کے حلقہ تلمذ میں شامل ہوکر باضابطہ اپنی شعری سفر کا آغاز کیا۔ ان کا پورا نام ظفر عالم خاں شیرازی تھا اور تخلص 'ظفر' تھا سنہ 2019 میں مختصر علالت کے بعد ان کا انتقال ہوا گیا۔

ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں ظفر شیرازی کے فرزند محمد اعظم خان نے بتایا کہ ظفر شیرازی نے استاد شاعر سروش مچھلی شہری کی زیر سرپرستی اپنی شاعری کے نوک و پلک سنوارے۔ وہ تلخ طبیعت تھے اپنے مشن اور کام کے ساتھ بہت مخلص رہتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ 'ظفر شیرازی جدیدیت و حقیقت کے ساتھ تھے ان کی شاعری میں ایک نیا رنگ تھا وہ اپنی شاعری کے ذریعے سے پیغام دینے کا کام کرتے تھے'۔ انہوں نے بتایا کہ چند دنوں کے اندر ہی ان کا ایک شعری مجموعہ 'کلیات ظفر شیرازی' کے نام سے منظر عام پر آئے گا اس تعلق سے ابھی کام چل رہا ہے'۔

اعظم خان نے بتایا کہ ' میرے علم کے مطابق، ظفر شیرازی نے اس وقت کے وزیراعظم چندر شیکھر کی موجودگی میں اپنا پہلا مشاعرہ بلیا میں پڑھا تھا۔ اس وقت متعدد دیگر بڑی شخصیات بھی وہاں موجود تھیں، ان کے اس شعر کی تمام لوگوں نے پذیرائی کی تھی وہ شعر یہ تھا کہ'۔۔

وفا کا درس دیتے ہو ہمیں کیا

وفا کا باب ہم نے ہی لکھا ہے

معروف نقاد مرحوم شمس الرحمٰن فاروقی نے بھی ان کے اشعار کی تعریف کی تھیں وہ شعر بھی مندرجہ ذیل ہے

یہ شام جو آئی ہے ایک شام بلا بن کر

اس شام کی دیکھیں ہوتی ہے سحر کب تک

خواہان ثمر سو چو اب پیڑ لگانے کی

یہ بوڑھا شجر آخر دیگا بھی ثمر کب تک

وہ گھر جو گرا ڈالا ناپاک حریفوں نے

ہم لوگ بنائیں گے دوبارہ وہ گھر کب تک

مزید پڑھیں: ایک شاعر سیریز: شاعرڈاکٹر الیاس صدیقی سے خصوصی گفتگو

ظفر شیرازی کا شمار جونپور کے استاد شعرا میں کیا جاتا تھا، ان کے اشعار اخبار جرائد و رسائل میں چھپتے رہے ہیں مشاعروں کے انعقاد میں وہ پیش پیش رہتے تھے شہر کے تمام پروگرامز میں ان کی شرکت ہوتی تھی انہیں نعت گوئی و غزل گوئی میں اچھا خاصا ملکہ حاصل تھا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.