یہ پہلا موقع تھا جب کہ منظر بھوپالی کورونا وبا کے دوران اپنے شہر بھوپال سے نکل دوسرے شہر رامپور میں مشاعرہ پڑھنے آئے۔
منظر بھوپالی نے اپنے اشعار سے قومی یکجہتی اور آپسی بھائی چارے کا پیغام دیا۔
اس موقع پر منظر بھوپالی نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کرکے کئی اہم باتوں کا تذکرہ کیا۔
رامپور میں جاری ہنر ہاٹ میں کل ہند مشاعرہ اور کوی سمیلن کا اہتمام کیا گیا تھا۔
اس موقع پر کئی نامور شعراء، شاعرات اور کویوں نے شرکت کرکے شعر و سخن کا سماع باندھا۔ان ہی نامور شعراء کرام میں ایک نام عالمی شہرت یافتہ شاعر منظر بھوپالی کا بھی ہے۔
آج منظر بھوپالی نے رامپور پہنچ کر اپنی شاعری سے سامعین کو محظوظ کیا۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے کلام سامعین کی نذر کرکے آپسی بھائی چارے اور امن کا پیغام دیا۔
مزید پڑھیں:ملک کی صورتحال پر منظر بھوپالی کی نظم
انہوں نے کہا کہ کورونا وباء کی وجہ سے ایک لمبے لاک ڈاؤن کے بعد اب وہ قومی سطح کے مشاعرہ میں ادبی سرزمین رامپور اپنی نئی زندگی کا پہلا مشاعرہ پڑھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس درمیان میں بھی تقریباً تین مرتبہ کورونا پازٹیو ہو گیا تھا لیکن اب اللہ کا شکر ہے کہ صحت یاب ہوں۔
اس موقع پر انہوں نے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کورونا دور میں گھٹن بھرے ماحول سے لوگوں کو باہر نکال کر ہنر ہاٹ کے ذریعہ لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔
نئے زرعی قوانین کے خلاف ملک کے کسانوں کی تحریک سے متعلق ہمارے ایک سوال کے جواب میں شاعر منظر بھوپالی نے کہا کہ میں بھی ایک کسان ہوں۔ انہوں نے کہا کہ کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ملک کا کسان اس شدید سردی میں گذشتہ ایک ماہ سے کھلے آسمان کے نیچے بیٹھا ہوا ہے لیکن حکومت ان کسانوں کے جائز مطالبات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ سرکار کو اپنی ضد چھوڑ کر زراعت کے ان نئے قوانین کو منسوخ کرنا چاہئے یا پھر کوئی ایسا راستہ اختیار کرنا چاہئے جس سے ہمارے یہ کسان بھائیوں کی زندگی میں خوشحالی لوٹ آئے۔
واضح رہے کہ مرکزی حکومت کے زراعت سے متعلق نئے قونین کے خلاف کسانوں کی حمایت میں مسلسل سیاسی، سماجی اور مذہبی شخصیات اور رہنماء علم احتجاج بلند کر رہے ہیں۔
تاہم ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے کسان دہلی کے مختلف بارڈرز کے ساتھ ہی ملک کے دیگر خطوں میں اپنے گھروں اور کھیتوں کو چھوڑے بیٹھے ہوئے ہیں۔
اس کے باوجود ابھی تک حکومت کی جانب سے کوئی مثبت پہل ہوتی دکھائی نہیں دی ہے۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی کیا حکومت کسانوں کے مطالبات کو تسلیم کرتی ہے یا کسان اپنی تحریک کو مزید طویل کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔