صدیقیہ مسجد کے ٹرسٹی مقبول خان کہتے ہیں کہ مسجد طویل عرصے سے اس بڑے احاطے میں تعمیر کی گئی ہے۔ ایک ہزار سے زائد نمازیوں کی یہاں شرکت رہتی ہے۔ یہ مسجد وقف بورڈ میں رجسٹرڈ ہے۔ بلڈر اور سرکاری تنظیم ایس آر اے اس مسجد کو منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
مسجد کے زمہ داروں کا کہنا ہے کہ مسجد کی جگہ بلڈر نے انہیں کہا ہے کہ از سر نو تعمیر کے بعد جو عمارت تعمیر ہوگی اس کے مکان فروخت کیے جائیں گے جبکہ مسجد کی اس بڑی جگہ کے بدلے میں چھوٹی جگہ دیکر مسجد کو محدود کر کے اسے کہیں اور مختص کی جائیگی۔ اس وجہ سے یہاں مقیم مسلمانوں میں شدید ناراضگی پائی جا رہی ہے۔
ایس آر اے اور بلڈر کی اس دھاندلی اور جبر کو دیکھتے ہوئے مسجد اور مقامی مسلمانوں نے بلڈر اور ایس آر اے کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔
ایڈوکیٹ این پی بھاوسار کا کہنا ہے کہ مسجد جوکہ وقف کی ملکیت ہے۔ اس میں کسی کی دخل انداز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلڈر اسے جھوپڑپٹی کی از سر نو تعمیر کے لئے بنائے گئے قوانین کی پشت پناہی میں اس کی از سر نو تعمیر کرنا چاہتی ہے لیکن وقف کی اس ملکیت کو اس قانون کے دائرے میں لایا نہیں جا سکتا۔ اسلیے ہم نے کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے مسجد کو بلڈر کے ہاتھوں فروخت کرنے والے ٹرسٹی شمیم دلوائی سے بات کرنی چاہی، لیکن اُنہوں نے بات کرنے سے انکار کے دیا۔
صدیقيه مسجد کا وجود سنہ 1976 میں عمل میں آیا 1977 میں اسکا رجسٹریشن کیا گیا تب سے لیکر لوگ یہاں نماز ادا کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں:
جامع مسجد کی انوکھی پہل: جلد ہی مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے ادارہ قائم کیا جائے گا
بلڈر اور ایک ٹرسٹی کے ذریعہ مسجد کینیز سودے بازی کو لیکر یہاں کے مسلمانوں نے ممبئی کے مسلمانوں سے اس بات کی اپیل کی ہے کہ وہ مسجد کے وجود کو برقرار رکھنے میں اُن کے ساتھ شانه بہ شانہ اور قدم سے قدم سے ملاکر کھڑے رہیں تاکہ مسجد پر کسی بلڈر یا حکومتی تنظیم ایس آر کی بھینٹ چڑھنے سے بچ جائے۔