قومی دارالحکومت دہلی کی شاہی جامع مسجد کے امام سید احمد بخاری نے اپنے آپ کو ان ہورڈنگز سے الگ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا اس ہورڈنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ ان لوگوں کی سازش ہے جو ملک میں نفرت پھیلانے کا کام کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا اس معاملے پر مرکزی حکومت کو کارروائی کرنی چاہیے۔ یہ ملک کی امن پسند فضا کو برباد کرنے کی ایک سازش ہے۔
دراصل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جس میں ممتاز مسلم رہنماوں سے منسوب کرتے ہوئے جھوٹے و فرقہ وارانہ بیانات کو دکھایا جا رہا ہے۔ یہ واقعہ اتر پردیش میں واقع ٹی پی انٹر کالج کی ایک باؤنڈری وال سے سوشل میڈیا پر گردشِ کر رہا ہے۔
اس ویڈیو کو نفرت انگیز بیانات کے ساتھ خوب شیئر کیا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ بینر 12 اگست کو لگائے گئے تھے۔
حالانکہ پرتاپ گڑھ پولیس کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے کہ "ابھی تک اس معاملے میں کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے اور تحقیقات جاری ہیں۔ تاہم نامعلوم افراد کے خلاف مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے کے معاملے میں انڈین پینل کوڈ سیکشن 153 A اور دیگر متعلقہ دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔"
بینرز میں اے آئی ایم آئی ایم کے رہنما اور ایم ایل اے اکبر الدین اویسی، جامع مسجد کے 13 ویں شاہی امام سید احمد بخاری، سماج وادی پارٹی کے قدآور رہنما اعظم خان، کولکتہ کے سابق شاہی امام نور الرحمان برکاتی اور ڈاکٹر ذاکر نائک کی تصاویر مع ان کی طرف منسوب بیانات شامل ہیں۔
بینر کے مطابق سید احمد بخاری نے کہا کہ ہندوؤں کو یوپی، بنگال، کیرالہ، آسام اور حیدرآباد کو چھوڑنا ہوگا کیونکہ ان ریاستوں میں مسلم اکثریت میں ہیں۔ تاہم مردم شماری کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق کسی بھی ریاست میں مسلم اکثریت میں نہیں ہیں۔
وہیں، سید احمد بخاری نے اس معاملے میں خود کے ملوث ہونے سے صاف انکار کر دیا اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے کبھی ایسا کوئی بھی بیان نہیں دیا۔