حیدرآباد: لفظوں کے جادوگر اور اردو میں کئی شاندار کلام لکھنے والے مشہور شاعر منور رانا کا انتقال ہو گیا ہے۔ اردو کے اس روشن چراغ نے 71 سال کی عمر میں دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ ایسے میں وہ بھلے ہی ہم میں نہ ہوں لیکن ان کی تخلیقات ہمیشہ ہماری زبان پر ورد ہوتی رہیں گی اور ان کے قارئین اکثر ان کے اشعار کو گنگناتے رہیں گے۔
اردو ادب اور اپنی غزلوں میں نمایاں خدمات کے لیے مشہور منور رانا 26 نومبر 1952 کو رائے بریلی، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ اپنے بیانات کی وجہ سے اکثر سرخیوں میں رہنے والے شاعر کو 2014 میں ان کی نظم 'شہدابہ' کے لیے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ تاہم انہوں نے اپنا ایوارڈ واپس کر دیا تھا۔
ماں ایک ایسی ہستی ہے جس کے بارے میں جتنا بھی لکھا جائے کم ہے، ماں جس کے ہونے سے گھر میں جنت ہوتی ہے، بغیر ماں کے پورا گھر ویران سا لگتا ہے۔ منور رانا جنہوں نے غزل کے مفہوم کو بدل کر رکھ دیا، ایک ایسے وقت میں مشاعروں کے منچ سے ماں کے حوالے سے غزل کہنا شروع کیا، جس وقت غزل میں محبوبہ کی تعریف، اس کے لبوں ورخسار پر غزلیں کہی جاتی تھیں۔ اس وقت منور رانا پر لوگوں نے انگلیاں اٹھائی، لوگوں نے سوال کرنا شروع کردیا کہ آپ یہ کس طرح کی غزل کہہ رہے ہیں؟ جبکہ غزل کے معنی ہی ہوتے ہیں محبوبہ سے باتیں کرنا؟
اس وقت منور رانا نے جواب دیا تھا کہ میں دنیا کے کسی ڈکشنری کو نہیں مانتا، شاعری میں جو محبوبہ ہوتی ہے وہ دنیا کی سب سے خوبصورت عورت ہوتی ہے۔ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ اگر تلسی داس کے محبوب بھگوان رام ہو سکتے ہیں، ایک کم ظرف شکل و صورت والی لڑکی ہماری محبوبہ ہو سکتی ہے، تو میری محبوب میری ماں کیوں نہیں ہو سکتی۔
- آئیے اردو کے اس عظیم شاعر کو یاد کرتے ہوئے ان کی کچھ منتخب اشعار پر نظر ڈالتے ہیں...
اب جدائی کے سفر کو مرے آسان کرو
تم مجھے خواب میں آ کر نہ پریشان کرو
سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں
کسی کے زخم پر چاہت سے پٹی کون باندھے گا
اگر بہنیں نہیں ہوں گی تو راکھی کون باندھے گا
بچوں کی فیس ان کی کتابیں قلم دوات
میری غریب آنکھوں میں اسکول چبھ گیا
لپٹ جاتا ہوں ماں سے اور موسی مسکراتی ہے
میں اردو میں غزل کہتا ہوں ہندی مسکراتی ہے
تمہارے شہر میں میت کو سب کاندھا نہیں دیتے
ہمارے گاؤں میں چھپر بھی سب مل کر اٹھاتے ہیں
سگی بہنوں کا جو رشتہ ہے اردو اور ہندی میں
کہیں دنیا کی دو زندہ زبانوں میں نہیں ملتا
بوجھ اٹھانا شوق کہاں ہے مجبوری کا سودا ہے
رہتے رہتے اسٹیشن پر لوگ قلی ہو جاتے ہیں
پھر کربلا کے بعد دکھائی نہیں دیا
ایسا کوئی بھی شخص کہ پیاسا کہیں جسے
کھلونوں کی دکانوں کی طرف سے آپ کیوں گزرے
یہ بچے کی تمنا ہے یہ سمجھوتا نہیں کرتی
اے خاک وطن تجھ سے میں شرمندہ بہت ہوں
مہنگائی کے موسم میں یہ تہوار پڑا ہے
کھلونوں کے لئے بچے ابھی تک جاگتے ہوں گے
تجھے اے مفلسی کوئی بہانہ ڈھونڈ لینا ہے
عشق ہے تو عشق کا اظہار ہونا چاہئے
آپ کو چہرے سے بھی بیمار ہونا چاہئے
- ماں کے حوالے سے منور رانا کے کچھ مشہور اشعار...
ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺩﮬﻮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ
ﻣﺎﮞ ﺑﮩﺖ ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺭﻭ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﻮﻧﭽﮭﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﺴﯽ ﺩﻥ ﺁﻧﺴﻮ
ﻣﺪﺗﻮﮞ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮬﻮﯾﺎ رﻭﭘﭩﮧ ﺍﭘﻨﺎ
ﻟﺒﻮﮞ ﭘﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﺪ ﺩﻋﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ
ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﻣﺎﮞ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺧﻔﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﺍﺫﺍﮞ ﺑﻼﺗﯽ ﮨﮯ
ﺷﺮﯾﺮ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﻣﺎﮞ ﺑﻼﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮔﮭﺮ ﻣﻼ ﺣﺼّﮯ ﻣﯿﮟ ﯾﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﮐﺎﮞ ﺁﺋﯽ
ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﺮﮮ ﺣﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﮞ ﺁﺋﯽ
ﺍﮮ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﮯ ﻣﻨﮧ ﺗﯿﺮﺍ ﮐﺎﻻ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ
ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﮭﻮﻝ ﺩی ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﺎﻻ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ
ﻣﯿﺮﯼ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮞ
ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﻟﭙﭧ ﺟﺎﺅﮞ ﮐﮧ ﺑﭽﮧ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮞ
ﻣﺮﺍ ﺧﻠﻮﺹ ﺗﻮ ﭘﻮﺭﺏ ﮐﮯ ﮔﺎﺅﮞ ﺟﯿﺴﺎ ﮨﮯ
ﺳﻠﻮﮎ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﺳﻮﺗﯿﻠﯽ ﻣﺎﺅﮞ ﺟﯿﺴﺎ ﮨﮯ
ﺣﺎﺩﺛﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﺮﺩ ﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﭽﺎ ﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ
ﻣﺎﮞ ﮨﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﺏ ﺗﯿﺮﯼ ﺩﻋﺎ ﻟﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ
ﻟﭙﭧ ﮐﮯ ﺭﻭﺗﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﮐﺒﮭﯽ ﺷﮩﯿﺪﻭﮞ ﺳﮯ
ﯾﮧ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻭﻃﻦ ﮐﯽ ﻣﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﮐﮯ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍﺱ ﭘﯿﮍ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﻣﺮﮮ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ
ﯾﮧ ﺍﯾﺴﺎ ﻗﺮﺽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ
ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺗﮏ ﮔﮭﺮ ﻧﮧ ﻟﻮﭨﻮﮞ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺳﺠﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ
ﯾﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﺴﺮﺕ ﻣﯿﺮﯼ ﺩﻭﻟﺖ ﭘﮧ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ
ﺍﮎ ﻣﺎﮞ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺑﺲ ﻣﯿﺮﯼ ﺧﻮشی ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ ﺧﻮﺵ ﮨﮯ
ﺳﻤﺠﮭﻮ ﮐﮧ ﺻﺮﻑ ﺟﺴﻢ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ
ﺗﯿﺮﮮ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﺘﺎﺭﮮ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻮﻧﮕﮯ ﺍﮮ ﻓﻠﮏ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﻣﯿﻠﯽ ﺍﻭﮌﮬﻨﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﻟﮕﯽ
ﺍﺑﮭﯽ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﮯ ﻣﺎﮞ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﺎ
ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﺟﺐ ﻧﮑﻠﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺩﻋﺎ ﺑﮭﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﺘﯽ ﮨﮯ
ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﮐﺸﺘﯽ ﻣﺮﯼ ﺳﯿﻼﺏ ﻣﯿﮟ ﺁ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﻣﺎﮞ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺁ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮨﻤﯿﮟ ﭘﺮﺩﯾﺲ ﻧﮯ ﻣﮕﺮ
ﻣﺎﮞ ﺳﺐ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﯿﭩﺎ ﻣﺰﮮ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دی
صرف ایک کاغذ پہ لکھا شبد ماں رہنے دیا
یہ بھی پڑھیں:اردو کے معروف شاعر منور رانا 71 سال کی عمر میں انتقال کر گئے