ETV Bharat / bharat

rani of jhansi death anniversary: بہادر خاتون کی تشبیہ جھانسی کی رانی سے کیوں دی جاتی ہے؟

ہاتھوں میں شمشیر، گھوڑے پر سوار اور پیٹھ پر بچے کو باندھے یہ تصویر دیکھ کر جھانسی کی رانی کا تصور آجاتا ہے، یہ وہ عظیم جنگ مجاہد ہیں جنہوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر انگریزوں کا مقابلہ کیا۔ آج بھی جب کوئی خاتون مشکل حالات کا سامنا اکیلی کھڑی ہو کر کرتی ہے تو اسے جھانسی کی رانی سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔

rani of jhansi
جھانسی کی رانی
author img

By

Published : Jun 18, 2021, 2:20 PM IST

Updated : Jun 18, 2021, 2:39 PM IST

جھانسی کی رانی 19 نومبر 1828 کو پیدا ہوئی اور 18 جون 1858 کو موت ہوئی۔ رانی جھانسی کا نام بچپن میں منو بائی تھا اور بعد میں لکشمی بائی کے نام سے مشہور ہوئیں۔ جھانسی کے راجہ گنگا دھر راﺅ کی دوسری بیوی تھی۔

گنگا دھر راؤ کے یہاں نہ تو پہلی بیوی سے اولاد ہوئی اور نہ ہی لکشمی بائی کے بطن سے اس کا والی پیدا ہوا تو اس نے ایک بچہ کو گود لے لیا، گورنر جنرل نے اس بچہ کو تخت کا وارث بنانے کا وعدہ بھی کرلیا۔ گنگا دھر راﺅ کی 1853 میں موت ہوئی۔

بعد ازاں 1853ء میں لارڈ لہوزی بھارت کا نیا گورنر جنرل بن کر وارد ہوا تو اس نے ایک ایسا قانون بنایا جس کی رو سے گود لئے بچہ کو تخت کا وارث نہیں بنایا جاسکتا بلکہ تمام لاولد حکمرانوں کی ریاستوں کو انگریزی حکومت میں شامل کرنے کا انتظام تھا، اسی قانون کے تحت راجہ کے انتقال پر انگریز حکومت نے جھانسی کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے کا اعلان کر دیا اور گود لئے ہوئے بچے دامودر راؤ نیز لکشمی بائی کے لئے سالانہ پینشن مقرر کردی، اس پینشن کی ادائیگی میں بھی انگریز حکمرانوں نے ناانصافی سے کام لیا۔

دوسری طرف بٹھور کے نانا صاحب کے ساتھ انگریزوں نے اپنی روایتی بدمعاملگی کا مظاہرہ کیا، غیرت مند نانا صاحب جو پہلے سے ہی اپنی بہن لکشمی بائی کے ساتھ انگریزوں کی بد دیانتی پر چراغ پا تھے، بھڑک اٹھے۔ ان کے جانباز سپہ سالار تاتیا ٹوپے کا بھی یہی مشورہ تھا کہ ان ظالموں سے نمٹنے کیلئے اب جنگ کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے لہٰذا نانا صاحب کے مشورہ پر رانی لکشمی بائی نے انگریزوں کا حکم ماننے سے انکار کرکے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی، انگریز جو پہلے سے ہی ساری صورت حال پر نظر رکھے ہوئے تھے جھانسی کی رانی کو پریشان کرنے لگے مگر قدرت نے اس نازک سی عورت کو فولاد کا دل اور چٹان جیسا حوصلہ بخشا تھا لہٰذا وہ مقابلہ کرتی رہیں۔

اس درمیان ننھے خاں نام کے ایک پیشہ ور لٹیرے کو شہہ دے کر انگریزوں نے جھانسی پر حملہ کرادیا، رانی نہیں چاہتی تھی کہ آپس میں خون خرابہ ہو، اس نے ننھے خاں سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ ننھے خاں نے تین لاکھ روپے کا مطالبہ کیا، رانی نے شر کو مٹانے کے جذبہ سے کسی طرح یہ مطالبہ پورا کردیا، کچھ دن بعد ہی انگریز حکمرانوں نے رانی پر بغاوت کا الزام لگاکر اس سے جواب طلب کیا، رانی شیرنی کی طرح گرج اٹھی اور کوئی باضابطہ جواب دینے سے صاف انکار کردیا، جس کے ردعمل میں سامراجی فوج رانی کو قید کرنے کیلئے جھانسی کی طرف بڑھنے لگی، رانی لکشمی بائی نے مردانہ فوجی لباس زیب تن کیا اور اپنی رعایا پر واضح کردیا کہ وقت آگیا ہے ہم انگریزوں کے بزدلانہ حملہ کا جواب دیں اور اگر اس راہ میں عزت کی موت ملے تو اس کو بھی گلے لگالیں، عوام نے رانی کی آواز پر لبیک کہہ کر ان سے عہد وفاداری کیا۔

دوسری طرف انگریزوں کا پیغام ملا کہ رانی خود کو ہمارے حوالے کردے، رانی کا برملا جواب تھا کہ بھارتی عورت خود کو صرف اپنے شوہر کے حوالے کرتی ہے کسی دوسرے کی یہ مجال نہیں کہ زندگی میں اسے ہاتھ لگالے، اس کے ساتھ ہی جھانسی کے قلعہ سے توپوں نے گرجنا شروع کردیا۔

دوسری طرف نانا صاحب اور تاتیا ٹوپے نے مورچہ سنبھال لیا اور ایک گھمسان کی جنگ چھڑگئی، شروع میں انگریز فوجیں اپنے حلیفوں کے ساتھ بھی کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں حاصل کرسکیں اسی عرصہ میں تاتیا ٹوپے کی شکست کا حال معلوم ہوا تو رانی کافی اداس ہوگئی، اس نے سوچا کہ وفادار مٹھی بھر جانباز سپاہی کب تک زبردست انگریز فوج کا مقابلہ کرسکیں گے۔ انگریز بھی قلعہ کے کافی قریب پہنچ چکے تھے انہوں نے رانی کو زندہ جلانے کیلئے قلعہ کے چاروں طرف آگ لگادی، رانی اپنے گود لئے بیٹے کو گھوڑے پر سوار کرکے کسی طرح وہاں سے نکل گئی، برق رفتار گھوڑے نے ہوا سے باتیں کرتے ہوئے چوبیس گھنٹے میں ایک سو دو میل کا فاصلہ طے کرکے رانی کو صحیح و سلامت کالپی پہنچا دیا، جن فوجیوں نے پیچھا کیا ان میں سے بیشتر رانی کے ہاتھوں مارے گئے، کالپی میں نانا صاحب اپنی بہن کا استقبال کرنے کیلئے موجود تھے لیکن دوسرے ہی دن پیشوا کی فوج شکست سے دوچار ہوگئی تو دونوں بھائی بہن گوالیار کی طرف بڑھ گئے۔

مزید پڑھیں:

earn from calligraphy: کیلیگرافی کے ذریعے اچھا پیسہ کما رہی ہیں آفرین جانواری

گوالیار کا راج جیا جی راؤ سندھیا انگریزوں کا وفادار تھا عوام چاہتے تھے کہ راجہ بھی اس موقع پر جنگ کا اعلان کرے مگر وہ راضی نہ ہوا اور رعایا کے تیور دیکھ کر انگریزوں کی پناہ میں چلا گیا، دوسرے دن کرنل اسمتھ گوالیار پر حملہ آور ہوگیا وہاں دادِ شجاعت دینے کے لئے رانی خود جنگ میں کود پڑی، فتح قریب تھی کہ غدار دیوان راؤ دنکر انگریزوں سے جا ملا، پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے میدان جنگ کا نقشہ تبدیل ہوگیا، رانی صورت حال کی نزاکت کا احساس کرکے اپنے وفادار سپاہیوں کے ساتھ ایک سمت چل پڑی، دشمن کے سپاہی تعاقب میں تھے موقع پاکر ایک سپاہی نے تلوار کا ایسا وار کیا کہ گال سمیت داہنی آنکھ باہر نکل آئی مگر شیردل رانی تلوار چلاتی رہی اس نے اپنے وفادار سپاہی چندر راؤ کو تاکید کی خبردار میرے جسم کو انگریز نہ ہاتھ لگاپائیں۔ پھر وہ گرپڑی، رام چندر راؤ نے وہیں چتا تیار کی، کچھ ہی دیر میں افق پر شفق کی سرخی پھیلنے لگی جو اس کی غماز تھی کہ ملک وقوم کیلئے جان نچھاور کرنے والے مرتے نہیں، زمین پر گرا ہوا ان کے لہو کا ایک ایک قطرہ شفق کے رنگ میں ڈھل جاتا ہے۔

جھانسی کی رانی 19 نومبر 1828 کو پیدا ہوئی اور 18 جون 1858 کو موت ہوئی۔ رانی جھانسی کا نام بچپن میں منو بائی تھا اور بعد میں لکشمی بائی کے نام سے مشہور ہوئیں۔ جھانسی کے راجہ گنگا دھر راﺅ کی دوسری بیوی تھی۔

گنگا دھر راؤ کے یہاں نہ تو پہلی بیوی سے اولاد ہوئی اور نہ ہی لکشمی بائی کے بطن سے اس کا والی پیدا ہوا تو اس نے ایک بچہ کو گود لے لیا، گورنر جنرل نے اس بچہ کو تخت کا وارث بنانے کا وعدہ بھی کرلیا۔ گنگا دھر راﺅ کی 1853 میں موت ہوئی۔

بعد ازاں 1853ء میں لارڈ لہوزی بھارت کا نیا گورنر جنرل بن کر وارد ہوا تو اس نے ایک ایسا قانون بنایا جس کی رو سے گود لئے بچہ کو تخت کا وارث نہیں بنایا جاسکتا بلکہ تمام لاولد حکمرانوں کی ریاستوں کو انگریزی حکومت میں شامل کرنے کا انتظام تھا، اسی قانون کے تحت راجہ کے انتقال پر انگریز حکومت نے جھانسی کو اپنی سلطنت میں شامل کرنے کا اعلان کر دیا اور گود لئے ہوئے بچے دامودر راؤ نیز لکشمی بائی کے لئے سالانہ پینشن مقرر کردی، اس پینشن کی ادائیگی میں بھی انگریز حکمرانوں نے ناانصافی سے کام لیا۔

دوسری طرف بٹھور کے نانا صاحب کے ساتھ انگریزوں نے اپنی روایتی بدمعاملگی کا مظاہرہ کیا، غیرت مند نانا صاحب جو پہلے سے ہی اپنی بہن لکشمی بائی کے ساتھ انگریزوں کی بد دیانتی پر چراغ پا تھے، بھڑک اٹھے۔ ان کے جانباز سپہ سالار تاتیا ٹوپے کا بھی یہی مشورہ تھا کہ ان ظالموں سے نمٹنے کیلئے اب جنگ کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے لہٰذا نانا صاحب کے مشورہ پر رانی لکشمی بائی نے انگریزوں کا حکم ماننے سے انکار کرکے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی، انگریز جو پہلے سے ہی ساری صورت حال پر نظر رکھے ہوئے تھے جھانسی کی رانی کو پریشان کرنے لگے مگر قدرت نے اس نازک سی عورت کو فولاد کا دل اور چٹان جیسا حوصلہ بخشا تھا لہٰذا وہ مقابلہ کرتی رہیں۔

اس درمیان ننھے خاں نام کے ایک پیشہ ور لٹیرے کو شہہ دے کر انگریزوں نے جھانسی پر حملہ کرادیا، رانی نہیں چاہتی تھی کہ آپس میں خون خرابہ ہو، اس نے ننھے خاں سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ ننھے خاں نے تین لاکھ روپے کا مطالبہ کیا، رانی نے شر کو مٹانے کے جذبہ سے کسی طرح یہ مطالبہ پورا کردیا، کچھ دن بعد ہی انگریز حکمرانوں نے رانی پر بغاوت کا الزام لگاکر اس سے جواب طلب کیا، رانی شیرنی کی طرح گرج اٹھی اور کوئی باضابطہ جواب دینے سے صاف انکار کردیا، جس کے ردعمل میں سامراجی فوج رانی کو قید کرنے کیلئے جھانسی کی طرف بڑھنے لگی، رانی لکشمی بائی نے مردانہ فوجی لباس زیب تن کیا اور اپنی رعایا پر واضح کردیا کہ وقت آگیا ہے ہم انگریزوں کے بزدلانہ حملہ کا جواب دیں اور اگر اس راہ میں عزت کی موت ملے تو اس کو بھی گلے لگالیں، عوام نے رانی کی آواز پر لبیک کہہ کر ان سے عہد وفاداری کیا۔

دوسری طرف انگریزوں کا پیغام ملا کہ رانی خود کو ہمارے حوالے کردے، رانی کا برملا جواب تھا کہ بھارتی عورت خود کو صرف اپنے شوہر کے حوالے کرتی ہے کسی دوسرے کی یہ مجال نہیں کہ زندگی میں اسے ہاتھ لگالے، اس کے ساتھ ہی جھانسی کے قلعہ سے توپوں نے گرجنا شروع کردیا۔

دوسری طرف نانا صاحب اور تاتیا ٹوپے نے مورچہ سنبھال لیا اور ایک گھمسان کی جنگ چھڑگئی، شروع میں انگریز فوجیں اپنے حلیفوں کے ساتھ بھی کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں حاصل کرسکیں اسی عرصہ میں تاتیا ٹوپے کی شکست کا حال معلوم ہوا تو رانی کافی اداس ہوگئی، اس نے سوچا کہ وفادار مٹھی بھر جانباز سپاہی کب تک زبردست انگریز فوج کا مقابلہ کرسکیں گے۔ انگریز بھی قلعہ کے کافی قریب پہنچ چکے تھے انہوں نے رانی کو زندہ جلانے کیلئے قلعہ کے چاروں طرف آگ لگادی، رانی اپنے گود لئے بیٹے کو گھوڑے پر سوار کرکے کسی طرح وہاں سے نکل گئی، برق رفتار گھوڑے نے ہوا سے باتیں کرتے ہوئے چوبیس گھنٹے میں ایک سو دو میل کا فاصلہ طے کرکے رانی کو صحیح و سلامت کالپی پہنچا دیا، جن فوجیوں نے پیچھا کیا ان میں سے بیشتر رانی کے ہاتھوں مارے گئے، کالپی میں نانا صاحب اپنی بہن کا استقبال کرنے کیلئے موجود تھے لیکن دوسرے ہی دن پیشوا کی فوج شکست سے دوچار ہوگئی تو دونوں بھائی بہن گوالیار کی طرف بڑھ گئے۔

مزید پڑھیں:

earn from calligraphy: کیلیگرافی کے ذریعے اچھا پیسہ کما رہی ہیں آفرین جانواری

گوالیار کا راج جیا جی راؤ سندھیا انگریزوں کا وفادار تھا عوام چاہتے تھے کہ راجہ بھی اس موقع پر جنگ کا اعلان کرے مگر وہ راضی نہ ہوا اور رعایا کے تیور دیکھ کر انگریزوں کی پناہ میں چلا گیا، دوسرے دن کرنل اسمتھ گوالیار پر حملہ آور ہوگیا وہاں دادِ شجاعت دینے کے لئے رانی خود جنگ میں کود پڑی، فتح قریب تھی کہ غدار دیوان راؤ دنکر انگریزوں سے جا ملا، پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے میدان جنگ کا نقشہ تبدیل ہوگیا، رانی صورت حال کی نزاکت کا احساس کرکے اپنے وفادار سپاہیوں کے ساتھ ایک سمت چل پڑی، دشمن کے سپاہی تعاقب میں تھے موقع پاکر ایک سپاہی نے تلوار کا ایسا وار کیا کہ گال سمیت داہنی آنکھ باہر نکل آئی مگر شیردل رانی تلوار چلاتی رہی اس نے اپنے وفادار سپاہی چندر راؤ کو تاکید کی خبردار میرے جسم کو انگریز نہ ہاتھ لگاپائیں۔ پھر وہ گرپڑی، رام چندر راؤ نے وہیں چتا تیار کی، کچھ ہی دیر میں افق پر شفق کی سرخی پھیلنے لگی جو اس کی غماز تھی کہ ملک وقوم کیلئے جان نچھاور کرنے والے مرتے نہیں، زمین پر گرا ہوا ان کے لہو کا ایک ایک قطرہ شفق کے رنگ میں ڈھل جاتا ہے۔

Last Updated : Jun 18, 2021, 2:39 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.