وزیراعظم نریندر مودی نے راجیہ سبھا میں صدر کے خطاب پر اظہار تشکر کیا۔ انہوں نے کہا صدر کا خطاب اپنے آپ میں امید کی نئی کرن، نئی امنگ اور نئی ہمت پیدا کرنے والا خطاب رہا۔
خود کفیل بھارت کی راہ متعین کرنے والا اور اس دہائی کے لیے ایک راستہ بنانے والا خطاب رہا۔
ہمارے صدر نے جو خطاب کیا وہ تمام چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اہم رہا۔ انہوں نے جو بھی خطاب کیا وہ ہمارے لیے نہایت اہم تھا، میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
صدر کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنے کے لیے آپ کے بیچ آیا ہوں۔ راجیہ سبھا میں تقریباً 13-14 گھنٹوں تک 50 سے زائد اراکین نے اپنے اہم ترین خیالات کا اشتراک کیا۔ میں سبھی اراکین کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس بحث کو انہوں نے مثبت انداز میں لیا۔
یہ اچھا ہوتا کہ صدر کا خطاب سننے کے لیے تمام اراکین ہوتے، یہ دکھ ہمیشہ رہے گا کہ لوگ موجود نہیں تھے، یہ شکوہ ہمیشہ رہے گا۔ ان کے خطاب کی اہمیت ہمیشہ باقی رہے گی۔
صدر کا خطاب نہ سننے کے بعد بھی راجیہ سبھا میں اس پر بحث ہونا کافی مثبت رہا اور اسے سود مند بھی کہا جا ئے گا۔ اگر وہ سنتے اور کتنا زوردار مباحثہ ہوتا۔
نوجوانوں کا ملک نئے موقع کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ آزادی کے 75ویں سال میں ہم داخل ہورہے ہیں۔ یہ کافی تاریخی وقت گزر رہا ہے۔ ہمیں اس سال کو حوصلہ کا سال بنانا ہوگا۔ جب ہم آزادی کی صدی منائیں تب ہمارا ملک کہاں کھڑا ہوگا اس کے لیے ہمیں آگے بڑھ کر کوششیں کرتی رہنی ہوگی۔
پوری دنیا بھارت کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھ رہا ہے۔ جب میں مواقع کی بات کر رہا ہوں تو ممتاز ہندی شاعر میتھلی شرن گپت جی کی نظم پیش کرتا ہوں۔
- اوسر تیرے لیے کھڑا ہے
- پھر بھی تو چپ چاپ پڑا ہے
- تیرا کرم چھیتر بڑا ہے
- پل پل ہے انمول
- ارے بھارت اٹھ آنکھیں کھول
وزیراعظم نے کہا کہ 21 ویں صدی کے آغاز میں اگر وہ لکھتے تو کچھ ایسا لکھتے۔ انہوں نے اپنے لفظوں میں ان کی ترجمانی کی۔
- اوسر تیرے لیے کھڑا ہے
- تو آتم وشواس سے بھرا پڑا ہے
- ہر بادھا ہر بندش کو توڑ
- ارے بھارت آتم نربھرتا کے پتھ پر دوڑ
کرونا کے دوران جو خوفناک صورتحال بنی، کوئی کسی کی مدد کر سکے یہ نا ممکن ہوگیا، کوئی ملک، ریاست اور فیملی ایک دوسرے کی مدد نہ کر سکے ایسا ماحول پیدا ہو گیا تھا۔
پورا ملک متعدد پریشانیوں کا سامنا کر رہا ہے، کسی نے بھی نہیں سوچا ہوگا کہ ہمیں ایسی صورتحال سے گزرنا ہوگا۔
بھارت اگر کورونا کے بعد صورتحال سے نہ نمٹتا تو بھیانک صورتحال ہو جاتی، ہر ایک نے یہ لڑائی لڑی اور ہر کامیاب ہوئے، اس لڑائی کا کریڈٹ کسی سرکار یا شخص کو نہیں جاتا بلکہ بھارت کو جاتا ہے۔
کورونا کے تعلق سے نامعلوم دشمن سے کیسے لڑا جائے گا بھارت نے پوری دنیا کو سکھایا ہے۔ نئے سوچ کے ساتھ ہر کسی کو چلنا تھا۔ انسانیت کی حفاظت کرنے میں بھارت نے پوری دنیا میں اپنا لوہا منوایا ہے۔ بھارت کی پوری دنیا میں ستائش کی گئی۔
ہم نے لوگوں کے جذبات کا مزاق اڑایا۔ لوگوں نے کورونا کے بھگانے کے لیے دیے جلائے تو کچھ لوگوں نے اس کا مزاق اڑایا۔ یہ غیر مناسب لگا۔ مخالفت کرنے کے لیے ایشوز کی کمی نہیں ہے لیکن ایسی باتوں میں نہ الجھیں جس سے ملک کی بدنامی ہو اس سے کسی کو فائدہ نہیں پہنچے گا۔
وزیراعظم نے پرانی بیماریوں جیسے چیچک، خسرہ کی ویکسین کے انتظار کی مثالیں دیں اور آج جتنی جلدی اس نامعلوم بیماری (کورونا) سے لڑنے کے لیے جتنی تیزی میں ویکسین بنا لی گئی یہ ملک کی ترقی کی علامت ہے۔ کورونا نے دنیا کے ساتھ بھارت کے رشتے مضبوط کیا۔ پوری دنیا میں فارمیسی کا ہب بن گیا ہے بھارت۔ 150 سے زائد ممالک میں ہم نے کورونا کی ویکیسن پہنچائی ہے۔ پوری دنیا بھارت کی ویکسین پاکر خوش ہیں۔ ہمیں اس پر فخر ہونا چاہیے۔