موجودہ صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی میعاد 24 جولائی 2022 کو ختم ہو رہی ہے اس طرح 25 جولائی کو ملک کو نیا صدر ملے جائے گا۔ اس سے قبل صدر کے عہدے کے لیے انتخاب کا عمل مکمل ہو جائے گا۔ آئین کے آرٹیکل 54 کے مطابق صدر کا انتخاب راجیہ سبھا، لوک سبھا اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں کے منتخب اراکین پر مشتمل الیکٹورل کالج کے ذریعہ متناسب نمائندگی کے مطابق کیا جاتا ہے۔ صدارتی انتخاب میں عوام بالواسطہ طور پر شامل ہوتے ہیں یعنی صدارتی انتخاب میں ملک کے عوام براہ راست ووٹ نہیں دیتے بلکہ ان کی طرف سے منتخب ہونے والے ایم پی اور ایم ایل ایز ووٹ دیتے ہیں۔ ریاستوں کی قانون ساز کونسل اور پارلیمنٹ کے نامزد ارکان کو صدارتی انتخاب میں ووٹ ڈالنے کا حق نہیں ہے۔
- صدر کے عہدے کے لیے اہلیت: صدر کے عہدے کے لیے انتخاب لڑنے کے لیے امیدوار کا بھارت کا شہری ہونا لازمی شرط ہے۔ اس کی عمر 35 سال سے زیادہ ہونی چاہیے۔ امیدوار کسی منافع بخش عہدے پر نہ ہو۔ مقابلہ کرنے والے کے پاس لوک سبھا رکن بننے کی اہلیت ہونی چاہیے۔ الیکٹورل کالج میں اندراج کے لیے پچاس تجویز کنندگان اور پچاس حامی کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کی کسی بھی ریاست میں اس کے لیے ووٹر ہونا بھی ضروری ہے۔ Voters of Presidential Elections
- ارکان پارلیمنٹ اور ایم ایل ایز کے ووٹوں کی کیا قیمت ہے: ریاستی مقننہ کے کُل ووٹوں کی قیمت کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے منتخب ارکان کی تعداد سے تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ ارکان پارلیمنٹ کے ووٹوں کی قیمت کا اندازہ لگایا جاسکے۔ اس کے مطابق فی الحال ایک رکن اسمبلی کے ووٹ کی قیمت 708 ہے۔ ریاستی قانون ساز اسمبلی کے ہر رکن کے ووٹ کی قدر حاصل کرنے کے لیے اس ریاست کی کل آبادی کو ریاستی قانون ساز اسمبلی کے منتخب اراکین کی کُل تعداد سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ پھر بقیہ کو 1000 سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے مطابق اتر پردیش قانون ساز اسمبلی کے اراکین کے ووٹوں کی قیمت سب سے زیادہ 208 ہے جب کہ سکم کے اراکین اسمبلی کے ووٹ کی قیمت صرف 7 ہے۔
صدارتی انتخاب میں الیکٹورل کالج میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ارکان کے ووٹوں کی کل قیمت 5 لاکھ 49 ہزار 408 اور تمام ریاستوں کے قانون ساز ارکان کے ووٹوں کی قیمت 5 لاکھ 49 ہزار 495 ہے۔ اس طرح کُل ووٹوں کی قدر 10 لاکھ 98 ہزار 903 بنتی ہے۔ الیکشن جیتنے کے لیے 50 فیصد سے زیادہ ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ جموں و کشمیر میں اسمبلی معطل ہے۔ جس کی وجہ سے جولائی 2022 میں کُل ووٹوں میں 6264 ووٹ کم ہو جائیں گے۔ صدر کے عہدے کے امیدوار کو جیتنے کے لیے 5 لاکھ 46 ہزار 320 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔
- صدارتی انتخاب کے لیے کل ووٹ
نمائندہ | نمبر | ووٹ کی کل قدر |
ایم ایل اے | 4120 | 5,49,495 |
ایم پی | 776 | 5,49,408 |
کل عوامی نمائندے | 4896 | 10,98,903 |
- صدارتی انتخابات 2022 کی سیاسی صورتحال کیا ہے: ماہرین کا خیال ہے کہ اگر غیر این ڈی اے سیاسی جماعتیں متحرک ہوجائیں تو بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے امیدوار کو جیتنے کے لیے 1.5 فیصد ووٹ درکار ہوں گے۔ گزشتہ صدارتی انتخاب اور 2022 کے صدارتی انتخاب میں فرق یہ ہے کہ اس بار این ڈی اے خیمہ سے شیوسینا اور اکالی دل جیسی پارٹیاں نہیں ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں حمایت کرنے والی تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کے ساتھ بی جے پی کے تعلقات بھی اچھے نہیں ہیں۔ ان پانچ برسوں میں کئی ریاستوں میں بی جے پی کے ایم ایل ایز کی تعداد کم ہوئی ہے۔ اس وقت ملک کی 17 ریاستوں میں بی جے پی یا این ڈی اے کی حکومتیں ہیں۔ بی جے پی کے پاس 4 لاکھ 65 ہزار 797 ووٹ ہیں جب کہ اس کے اتحادی کے پاس 71 ہزار 329 ووٹ ہیں۔ این ڈی اے کے پاس کُل 5 لاکھ 37 ہزار 126 ووٹ ہیں جو کہ اکثریت سے تقریباً 9194 ووٹ کم ہیں۔
2017 کے صدارتی انتخابات میں بھی بی جے پی کے امیدوار رام ناتھ کووند کو کئی غیر کانگریس پارٹیوں کی حمایت حاصل تھی۔ 2017 میں کُل 4896 ایم پی اور ایم ایل ایز نے اپنا ووٹ ڈالا تھا۔ تب این ڈی اے امیدوار رام ناتھ کووند کو 10 لاکھ 98 903 ووٹوں میں سے 7 لاکھ 2 ہزار 44 ووٹ جبکہ مخالف امیدوار میرا کمار کو 3 لاکھ 67 ہزار 314 ووٹ ملے تھے۔
- کیا امکانات ہیں: 2022 کے صدارتی انتخابات میں این ڈی اے کے پاس جیتنے کے لیے درکار 5 لاکھ 46 ہزار 320 ووٹوں میں کچھ کم ووٹ ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں این ڈی اے کے امیدوار کو اُڑیسہ کی بیجو جنتا دل اور آندھرا پردیش کی وائی ایس آر کانگریس کی حمایت حاصل تھی۔ اس بات کا امکان ہے کہ این ڈی اے کو 2022 کے صدارتی انتخابات میں غیر کانگریسی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔