قوالی، مشاعرہ، مرثیہ خوانی، غزل گائیکی، داستان گوئی اور ڈرامہ و فلمیں ایسے مختلف تہذیبی و ثقافتی ادارے ہیں جنہوں نے اردو کو مقبول عام بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے، ان میں اہم ترین کردار بھارتی فلموں اور مشاعروں نے اداکیا ہے۔
سینٹرفار اردو کلچر اسٹڈیز (سی یو سی ایس)، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی جانب سے 'اردو زبان کے تہذیبی و ثقافتی ادارے' کے موضوع پر منعقدہ دو روزہ سیمینار کے پہلے اجلاس میں صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر حبیب نثار، شعبہ اردو، حیدرآباد یونیورسٹی نے ان خیالات کا اظہار کیا۔
قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کے تعاون سے منعقدہ دو روزہ آن لائن سیمینار کا منگل کو اختتام عمل میں آیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ فلم سازی کے ابتدائی دور میں شہر ممبئی میں بے شمار ادارے ایسے تھے اور آج بھی ہیں جہاں سینکڑوں کی تعداد میں فلموں میں کام کرنے والے لوگ ہرشام آکر اردو سیکھتے ہیں۔
اجلاس کے شریک صدر پروفیسر فاروق بخشی، شعبہ اردو، مانونے تمام مقالوں پر سیر حاصل تبصرہ کیا اور مقالہ نگاروں کو اپنے زرین مشوروں سے نوازا۔ پروفیسر ابن کنول، شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی نے کہا کہ انسانی زندگی کی طرح ادب بھی طبقوں میں بٹا ہوا ہے ایک وہ جو خاص طبقہ میں پڑھا جاتا ہے اور دوسرا وہ ہے جو لوگوں کے دلوں میں پروان چڑھتا ہے۔
ادب خاص کی مقبولیت محدود ہوتی ہے لیکن عوامی ادب یا لوک ادب ہر زمانے میں مقبول رہا۔ پہلے اجلاس میں پروفیسر احمد محفوظ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ڈاکٹر رشید انور رشید، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، ڈاکٹر محمد کاظم، دہلی یونیورسٹی، ڈاکٹر رضوان الحق، این سی ای آرٹی، نئی دہلی، ڈاکٹر عبداللہ امتیاز، ممبئی یونیورسٹی، ڈاکٹر ثمینہ بیگم، عثمانیہ یونیورسٹی کے علاوہ مولانا آزاد یونیورسٹی سے پروفیسر نسیم الدین فریس، ڈاکٹر شمس الہدیٰ، ڈاکٹر بی بی رضا خاتون اور ڈاکٹر احمد خان نے مقالے پڑھے۔
سیمینار کے دوسرے اجلاس کی صدر پروفیسر فاطمہ بیگم، سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی نے کہا 'اردو غزل کی مقبولیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ آج بھی دنیا بھر میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو اردو نہ جاننے کے باوجود اپنی گاڑیوں میں اردو غزلیں رکھتے اور انہیں سنتے ہیں اور اس عمل میں بھارتیہ فلموں کا بڑا ہاتھ ہے۔ فلمیں بہت سارے لوگوں کے اردو سیکھنے کی وجہ بھی بن رہی ہے'۔
پروفیسر انورپاشاہ، جے این یو اس اجلاس کے شریک صدر تھے۔ پروفیسر محمد ظفرالدین، ڈائرکٹر سی یو سی ایس نے اپنے تاثرات میں کہا 'یہ باعث مسرت ہے کہ عنوان کے تحت جن اداروں کی نشاندہی کی گئی ان میں سے اکثر موضوعات پر مقالے پڑھے گئے کیوں کہ مرکز نے عمدہ مقالہ پڑھنے کے لیے ایسے افراد کی نشان دہی کی گئی جنہوں نے ان میدانوں میں کچھ نہ کچھ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیے
کاشی ودیا پیٹھ یونیورسٹی کے جشن صد سالہ کے اختتامیہ کی جھلکیاں
انہوں نے عمدہ مقالہ جات کی پیش کشی کے لیے مقالہ نگاروں کو مبارکباد دی۔ اجلاس دوم میں پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی؛ پروفیسر آفتا ب احمد آفاقی، بنارس ہندو یونیورسٹی؛ ڈاکٹر ابوبکر عباد، دہلی یونیورسٹی؛ ڈاکٹر زبیر شاداب خان، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی؛ صدر ڈاکٹر لئیق رضوی، عالمی سہارا نیو ز چینل؛ ڈاکٹر ایس ایم اظہر عالم، مولانا آزاد کالج ویسٹ بنگال؛ ڈاکٹر فرحت شمیم، جموں یونیورسٹی؛ ڈاکٹر شاذیہ عمیر، دہلی یونیورسٹی؛ اور مولانا آزاد یونیورسٹی سے پروفیسر فاروق بخشی، پروفیسر پی ایف رحمان، ڈاکٹر سید محمود کاظمی؛ ڈاکٹر فیروز عالم اور ڈاکٹر ابوشہیم خان نے بھی اپنے اپنے مقالے پڑھے۔
سیمینار کو یوٹیوب پر نشر کرنے اور مہمانان کو آن لائن جوڑنے میں جناب رضوان احمد، ڈائرکٹر کی نگارنی میں انسٹرکشنل میڈیا سنٹر، مانو نے اپنا بھر پور تعاون فراہم کیا۔ کنوینر،ڈاکٹراحمدخان نے ہدیہئ تشکر پیش کیا اور نظامت کے فرائض انجام دیے۔