ETV Bharat / bharat

Plea On Qutub Minar: قطب مینار میں پوجا کرنے کی اپیل مسترد

مدعیان نے دعویٰ کیا کہ محمد غوری نے جین اور ہندو مندروں کو گرایا تھا اور اس کے ملبے پر قطب مینار تعمیر کیا گیا، اس لیے ان بتوں کی پوجا کرنے کا حق دیا جائے اور ایک ٹرسٹ بنایا جائے۔

court reject plea on qutab minar  saket court hears plea on qutub minar  etv bharat urdu news  قطب مینار میں پوجا کرنے کی اپیل مسترد  ساکیت کورٹ نے قطب مینار میں پوجا کرنے کی عرضی کو مسترد کردیا
قطب مینار میں پوجا کرنے کی اپیل مسترد
author img

By

Published : Nov 29, 2021, 9:10 PM IST

آج ساکیت کورٹ نمبر 3 نے سوٹ نمبر 875/2020 تیرتھنکر لارڈ رشبھ دیو وغیرہ بمقابلہ سیکریٹری وزارتِ ثقافت وغیرہ کو آرڈر 7 رول نمبر 11 سی پی سی کے تحت مسترد کر دیا۔

اس معاملے میں “لیگل ایکشن فار جسٹس” ٹرسٹ نے آرڈر 1 رول نمبر 10 سی پی سی کے تحت عدالت میں فریق بنائے جانے کی درخواست بھی داخل کی تھی۔

اس کے ساتھ ہی ٹرسٹ نے دوسری درخواست بھی داخل کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مدعی کے پاس مقدمہ دائر کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور مقدمہ آثارِ قدیمہ ایکٹ (Ancient Monument Act 1904 اور ایکٹ 1958 کے سیکشن 39، (Place Of Worship Act 1991) اور سیکشن 9 سی پی سی کی دفعات کے خلاف ہے اس لیے مقدمہ کو مسترد کیا جانا چاہیے۔


مدعیان نے دعویٰ کیا کہ محمد غوری نے جین اور ہندو مندروں کو گرایا تھا اور اس کے ملبے پر قطب مینار تعمیر کیا گیا، اس لیے ان بتوں کی پوجا کرنے کا حق دیا جائے اور ایک ٹرسٹ بنایا جائے۔


اس کے جواب میں عدالت میں کہا گیا کہ
1. قطب مینار اور اس کے پورے کمپلیکس (احاطہ) کو حکومت ہند نے 16 جنوری 1914 کو ایک سرکاری گزٹ شائع کرکے ایک محفوظ آثارِ قدیمہ قرار دیا تھا۔ اس وقت اس عمارت میں کسی مذہب کے پیروکاروں کی طرف سے کوئی مذہبی عبادت/پوجا نہیں ہوتی تھی۔ کسی بھی شخص نے 1904 کے ایکٹ کے تحت محفوظ آثارِ قدیمہ قرار دئے جانے کے نوٹیفیکیشن کو مسترد کرنے یا اپنا پوجا کرنے کے حق کو بحال کرنے کے لیے کوئ سوٹ سن 1914 یا اس کے تین سال بعد تک داخل نہیں کیا۔


2. غور طلب ہے کہ نوٹیفکیشن 1914 میں بھی یہ نہیں لکھا گیا کہ وہاں کوئی مذہبی مقام/بت موجود ہے۔

مدعیان نے بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ مقدمہ 2020 کے آخر میں (یعنی نوٹیفکیشن کے تقریباً 106 سال بعد) ٹرسٹ بنانے، پوجا کا حق حاصل کرنے اور باقی محفوظ آثارِ قدیمہ یعنی قطب مینار وغیرہ کو ہٹانے کے نامعقول اور غیر قانونی مطالبہ کے ساتھ یہ سوٹ داخل کیا۔

3. قطب مینار کمپلیکس علاقہ میں اس عمارت کی سن تعمیر 1191 کے بعد سے اب تک کوئی مندر نہیں ہے اور اس سے قبل بھی کوئی مندر نہیں تھا، اس کا کوئی پختہ ثبوت موجود نہیں ہے۔ Place Of Worship Act 1991 بھی ایسے معاملے پر کوئی مقدمہ چلانے کی اجازت نہیں دیتا اور یہ فراہم کرتا ہے کہ 15 اگست 1947 کو جو حالت تھی وہی برقرار رہے گی اور اس کو تبدیل کرنے کے لیے کوئی مقدمہ نہیں کیا جا سکتا۔ قطب مینار 1904 کے ایکٹ کے تحت ایک محفوظ عمارت قرار دیا گیا تھا اس لیے 1958 کے ایکٹ کی کوئی شق اس پر لاگو نہیں ہوتی۔

مزید پڑھیں:۔ قطب مینار احاطہ میں واقع مسجد کیس کی سماعت ملتوی



4. مدعی کا مقدمہ رضامندی اور حد بندی کے اصول کے خلاف ہے۔
5. ایک میمورنڈم مورخہ 19 فروری 2021 کو “لیگل ایکشن فار جسٹس” ٹرسٹ کی جانب سے مرکزی حکومت اور محکمہ آثار قدیمہ کے اعلیٰ حکام کو ٹرسٹ کے صدر محمد اسعد حیات اور سیکرٹری محمد انور صدیقی ایڈووکیٹ کے ذریعے بھیجا گیا تھا۔ اس کے بعد ٹرسٹ کی جانب سے عدالت میں دعویٰ خارج کرنے کی درخواست دی گئی تھی۔

عدالت میں ٹرسٹ کا فریق بنیادی طور پر سینئر ایڈوکیٹ میر اختر حسین نے پیش کیا۔ ان کے معاون کے طور پر ایڈوکیٹ عادل اور مسٹر پنت بھی شامل ہوئے۔ فضیل احمد ایوبی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے خصوصی طور پر اس کیس کی نگرانی کی۔

آج ساکیت کورٹ نمبر 3 نے سوٹ نمبر 875/2020 تیرتھنکر لارڈ رشبھ دیو وغیرہ بمقابلہ سیکریٹری وزارتِ ثقافت وغیرہ کو آرڈر 7 رول نمبر 11 سی پی سی کے تحت مسترد کر دیا۔

اس معاملے میں “لیگل ایکشن فار جسٹس” ٹرسٹ نے آرڈر 1 رول نمبر 10 سی پی سی کے تحت عدالت میں فریق بنائے جانے کی درخواست بھی داخل کی تھی۔

اس کے ساتھ ہی ٹرسٹ نے دوسری درخواست بھی داخل کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ مدعی کے پاس مقدمہ دائر کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور مقدمہ آثارِ قدیمہ ایکٹ (Ancient Monument Act 1904 اور ایکٹ 1958 کے سیکشن 39، (Place Of Worship Act 1991) اور سیکشن 9 سی پی سی کی دفعات کے خلاف ہے اس لیے مقدمہ کو مسترد کیا جانا چاہیے۔


مدعیان نے دعویٰ کیا کہ محمد غوری نے جین اور ہندو مندروں کو گرایا تھا اور اس کے ملبے پر قطب مینار تعمیر کیا گیا، اس لیے ان بتوں کی پوجا کرنے کا حق دیا جائے اور ایک ٹرسٹ بنایا جائے۔


اس کے جواب میں عدالت میں کہا گیا کہ
1. قطب مینار اور اس کے پورے کمپلیکس (احاطہ) کو حکومت ہند نے 16 جنوری 1914 کو ایک سرکاری گزٹ شائع کرکے ایک محفوظ آثارِ قدیمہ قرار دیا تھا۔ اس وقت اس عمارت میں کسی مذہب کے پیروکاروں کی طرف سے کوئی مذہبی عبادت/پوجا نہیں ہوتی تھی۔ کسی بھی شخص نے 1904 کے ایکٹ کے تحت محفوظ آثارِ قدیمہ قرار دئے جانے کے نوٹیفیکیشن کو مسترد کرنے یا اپنا پوجا کرنے کے حق کو بحال کرنے کے لیے کوئ سوٹ سن 1914 یا اس کے تین سال بعد تک داخل نہیں کیا۔


2. غور طلب ہے کہ نوٹیفکیشن 1914 میں بھی یہ نہیں لکھا گیا کہ وہاں کوئی مذہبی مقام/بت موجود ہے۔

مدعیان نے بدنیتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ مقدمہ 2020 کے آخر میں (یعنی نوٹیفکیشن کے تقریباً 106 سال بعد) ٹرسٹ بنانے، پوجا کا حق حاصل کرنے اور باقی محفوظ آثارِ قدیمہ یعنی قطب مینار وغیرہ کو ہٹانے کے نامعقول اور غیر قانونی مطالبہ کے ساتھ یہ سوٹ داخل کیا۔

3. قطب مینار کمپلیکس علاقہ میں اس عمارت کی سن تعمیر 1191 کے بعد سے اب تک کوئی مندر نہیں ہے اور اس سے قبل بھی کوئی مندر نہیں تھا، اس کا کوئی پختہ ثبوت موجود نہیں ہے۔ Place Of Worship Act 1991 بھی ایسے معاملے پر کوئی مقدمہ چلانے کی اجازت نہیں دیتا اور یہ فراہم کرتا ہے کہ 15 اگست 1947 کو جو حالت تھی وہی برقرار رہے گی اور اس کو تبدیل کرنے کے لیے کوئی مقدمہ نہیں کیا جا سکتا۔ قطب مینار 1904 کے ایکٹ کے تحت ایک محفوظ عمارت قرار دیا گیا تھا اس لیے 1958 کے ایکٹ کی کوئی شق اس پر لاگو نہیں ہوتی۔

مزید پڑھیں:۔ قطب مینار احاطہ میں واقع مسجد کیس کی سماعت ملتوی



4. مدعی کا مقدمہ رضامندی اور حد بندی کے اصول کے خلاف ہے۔
5. ایک میمورنڈم مورخہ 19 فروری 2021 کو “لیگل ایکشن فار جسٹس” ٹرسٹ کی جانب سے مرکزی حکومت اور محکمہ آثار قدیمہ کے اعلیٰ حکام کو ٹرسٹ کے صدر محمد اسعد حیات اور سیکرٹری محمد انور صدیقی ایڈووکیٹ کے ذریعے بھیجا گیا تھا۔ اس کے بعد ٹرسٹ کی جانب سے عدالت میں دعویٰ خارج کرنے کی درخواست دی گئی تھی۔

عدالت میں ٹرسٹ کا فریق بنیادی طور پر سینئر ایڈوکیٹ میر اختر حسین نے پیش کیا۔ ان کے معاون کے طور پر ایڈوکیٹ عادل اور مسٹر پنت بھی شامل ہوئے۔ فضیل احمد ایوبی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے خصوصی طور پر اس کیس کی نگرانی کی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.