بھوپال: بھوپال میں مسلم علماء کے ایک گروپ نے کھرگون اور بڑوانی اضلاع میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد ریاستی حکومت کی بلڈوزر مہم کے خلاف مدھیہ پردیش ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ شہر قاضی سید مشتاق علی ندوی کی قیادت میں علماء نے الزام لگایا کہ ریاستی حکومت نے کئی مسلم خاندانوں کو بے گھر کر دیا ہے اور انہیں کھلے آسمان کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔ Muslim leaders cleric will go to the High Court against MP govt bulldozer campaign
علماء نے یہ بھی الزام لگایا کہ بی جے پی زیرقیادت ریاستی حکومت متعصب ہے اور تشدد کے معاملات میں بغیر پیشگی تفتیش کے کمیونٹی کو نشانہ بنا رہی ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ متعدد خاندانوں کے مکانات مسمار کر دیے گئے، حالانکہ خاندان کا کوئی بھی فرد تشدد میں ملوث نہیں تھا۔ جب گھر پردھان منتری آواس یوجنا (PMAY) کے تحت بنایا گیا تھا، تو حکومت کسی کے گھر کو کیسے گرا سکتی ہے۔ ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ضلع انتظامیہ کے بلڈوزر نے کھرگون میں پی ایم اے وائی کے تحت بنائے گئے مکان کو منہدم کردیا۔
شہر قاضی سید مشتاق علی نے کہاکہ "ہم نے ہائی کورٹ میں حکومت کی بلڈوزر مہم کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم نے اس معاملے پر آپس میں بات چیت کی ہے اور ہم یقینی طور پر اس یک طرفہ مہم کے خلاف عدالت جانے والے ہیں۔" فرقہ وارانہ جھڑپوں کے ایک دن بعد 10 اپریل کو کھرگون اور باروانی اضلاع میں مسمار کرنے کی مہم شروع کی گئی تھی۔ ریاستی حکومت نے کہا کہ بلڈوزر مہم غیر قانونی تجاوزات کے خلاف شروع کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں:۔ Ram Navami violence case: رام نومی تشدد معاملہ میں پہلے سے جیل میں قید تین افراد کے خلاف مقدمہ درج
واضح رہے کہ 11 اپریل کو مدھیہ پردیش کے کھرگون شہر میں رام نومی کی تقریبات کے دوران مبینہ طور پر ایک مسجد کے قریب اشتعال انگیز نعرے لگائے جانے کے بعد تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ ماحول خراب ہوتا دیکھ کر کرفیو نافذ کردیا گیا تھا جس کے نتیجے میں ہنگامہ آرائی ہوئی تھی۔ ریاست کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے بعد میں ان لوگوں کی جائیدادوں اور گھروں کو مسمار کرنے کا حکم دیا جو مبینہ طور پر تشدد میں ملوث تھے۔ زیادہ تر خاندان غریب معاشی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔