ریاستی کانگریس کمیٹی کے ترجمان بھوپیندر گپتا نے کہا کہ مرکزی حکومت کا تینوں زرعی قوانین کو واپس لینا کسانوں کی کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کہ راہل گاندھی کو مبارک باد دینی چاہیے کہ انہیں دہشت گرد کہنے پر بھی وہ کسانوں کے ساتھ کھڑے رہے۔ کسان متحد ہوکر حکومت سے لڑتے رہے اور آخر میں ان کو کامیابی حاصل ہوئی- دنیا کی کوئی بھی تانا شاہ حکومت عوام کی طاقت کے آگے ٹک نہیں سکتی ہے۔ یہ اس کامیابی سے ثابت ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر مرکزی حکومت صحیح وقت پر فیصلہ لے لیتی تو کم سے کم 700 کسانوں کی موت نہ ہوتی۔ تحریک کے درمیان جو کسانوں کی پیداوار کا بڑا نقصان ہوا ہے اس سے بھی بچا جا سکتا تھا اور اس وجہ سے ملک کی معشیت پر جو اثر پڑا وہ بھی روکا جا سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اب حکومت کو یہ سمجھ میں آگیا ہے کہ اترپردیش میں ہونے والے انتخابات ضد، انا اور ہیرا پھیری کرنے سے نہیں جیتے جا سکتے ہیں، اس لئے مرکزی حکومت نے یہ فیصلہ لیا ہے۔
مزید پڑھیں:۔ زرعی قانون کو واپس لینا بی جے پی کا سیاسی ہتھکنڈا: ایس ٹی حسن
وہیں ریاست مدھیہ پردیش کے وزیر زراعت کمل پٹیل نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے تینوں زرعی قوانین کسانوں کے فائدے کے لئے بنائے تھے تاکہ کسانوں کو کھیتی باڑی میں فائدہ پہنچے، ان کی ترقی ہو، کسانوں کا نقصان فائدے تبدیل ہو اور کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ کسانوں نے ان تینوں قوانین کی بڑے پیمانے پر حمایت بھی کی تھی لیکن پنجاب، ہریانہ، اتر پردیش اور کچھ کسان تنظیموں نے ان قوانین کے خلاف کسانوں کو ورغلایا اور اس کے خلاف مسلسل احتجاج کرتے رہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے کسانوں کو بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن کسان نہیں سمجھ پائے، اس لیے آج وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے اس قول کو دھیان میں رکھتے ہوئے سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کے تحت کسانوں سے معافی مانگتے ہوئے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ بھارت کا ایک بھی کسان غیر مطمئن نہ رہے