ETV Bharat / bharat

دہلی سے خاص رپورٹ: کورونا کے دور میں ہوئی زیادہ تر نارمل ڈلیوری

پورا ملک جب کورونا وائرس سے متاثر تھا اور وائرس میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا، اس دوران اموات کی خبروں نے ملک کو بےچین کر رکھا تھا۔ ٹھیک اسی مدت کے دوران ملک کے ایک بڑے سرکاری اسپتال یعنی دہلی میں واقع ایل این جے پی (لوک نائیک جے پرکاش نرائن) اسپتال میں سب سے زیادہ نارم ڈلیوری ہوئی۔

most normal
most normal
author img

By

Published : Feb 18, 2021, 10:30 AM IST

Updated : Feb 18, 2021, 11:25 AM IST

کورونا کے دور میں جہاں ہر طرف سے بری خبریں سنائی دے رہی تھیں وہیں کچھ اچھی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے واقعات کے درمیان سب سے زیادہ نارمل ڈلیوری ہوئی اور سیزیرین ڈلیوری میں کمی آئی ہے۔ اس کے متعلق ای ٹی وی بھارت نے دہلی کے بڑے اسپتال میں سے ایک لوک نائیک جئے پرکاش اسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر سریش کمار کے ساتھ خصوصی گفتگو کی، جو خواتین اور بچے کی پیدائش کی پریشانیوں پر کام کررہے ہیں۔

کرونا دور میں ہوئی زیادہ تر نارمل ڈلیوری

ایل این جے پی اسپتال میں سب سے زیادہ نارمل ڈلیوری

ڈاکٹر سریش کمار نے بتایا کہ کورونا کے باعث نافذ لاک ڈاؤن کے دوران سب سے زیادہ نارمل ڈلیوری ہوئی ہے، جس میں کورونا سے متاثر پانچ سو سے زیادہ ڈلیوری ایل این جے پی اسپتال میں ہوئی ہے، کیونکہ لاک ڈاؤن کے دوران کئی پرائیویٹ اسپتال متاثرہ خاتون کی ڈلیوری سے منع کر رہے تھے۔ ایسے میں زیادہ تر خواتین کی ڈلیوری ایل این جے پی اسپتال میں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اس دوران تقریباً 200 سیزیرین ڈلیوری ہوئی جبکہ 300 نارمل ڈلیوری ہوئی ہے۔

ڈلیوری کے دوران خطرہ ہونے پر کرنا پڑتا ہے سیزیرین

ڈاکٹر سریش نے بتایا کہ چونکہ سیزرین ڈلیوری میں ماں اور بچے دونوں کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہوتا ہے لہذا انفیکشن پھیلنے کا خدشہ بھی ہے اور بعد میں ماں کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور دوسرا بچہ پیدا ہونے کے دوران اسے بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں نارمل ڈلیوری بہتر ہوتی ہے، حالانکہ معائنے کے دوران اگر ڈاکٹر کو محسوس ہوتا ہے کہ نارمل ڈلیوری سے بچے یا ماں کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے یا پیٹ میں بچے کی نشوونما رک گئی ہے تو پیٹ کا آپریشن کر ڈلیوری کی جاتی ہے۔

کورونا انفیکشن کے خوف سے نہیں کیا گیا سیزیرین

ڈاکٹر نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران کیونکہ اسپتالوں میں کورونا مریضوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور متاثرہ ماؤں کی ڈلیوری بھی کرنی پڑ رہی تھی، اس کے باعث ڈاکٹروں کو خدشہ تھا کہ اگر سیزیرین ڈلیوری کی جائے تی تو انفیکشن پھیل سکتا ہے۔ اس لئے نارمل ڈلیوری پر زیادہ توجہ دی گئی۔ یہی وجہ رہی کہ کورونا کے دوران سب سے زیادہ اسپتالوں میں نارمل ڈلیوری ہوئی۔

ڈاکٹروں نے نارمل ڈلیوری کو ترجیہ دی

ڈاکٹر سریش کمار نے کہا کہ ہر ڈاکٹر کی ترجیح نارمل ڈلیوری ہوتی ہے۔ ہم یہاں میڈیکل طلبہ کو یہ بھی سکھاتے ہیں کہ نارمل ڈلیوری کو ترجیح دی جانی چاہئے لیکن اگر بچے یا ماں کی جان کو خطرہ ہو یا کوئی اور پریشانی ہو تو پھر سیزرین ڈیلیوری بھی کرنی ہوگی۔

سیزرین ڈلیوری میں خواتین کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے

اس کے ساتھ ہی خواتین نے سیزرین اور عام ڈلیوری کے متعلق کہا کہ سیزیرین میں اس وقت زیادہ پریشانی نہیں ہوتی ہے لیکن بجے کی پیدائش کے بعد تقریباً ایک مہینے تک مکمل طور پر آرام کرنا پڑتا ہے اور آپریشن کے دوران لگائے گئے ٹانکوں سے تکلیف ہوتی ہے اور دوسرے بچے کی پیدائش کے دوران بھی خواتین کو پریشانی ہوتی ہے۔

کورونا کے دور میں جہاں ہر طرف سے بری خبریں سنائی دے رہی تھیں وہیں کچھ اچھی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے واقعات کے درمیان سب سے زیادہ نارمل ڈلیوری ہوئی اور سیزیرین ڈلیوری میں کمی آئی ہے۔ اس کے متعلق ای ٹی وی بھارت نے دہلی کے بڑے اسپتال میں سے ایک لوک نائیک جئے پرکاش اسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر سریش کمار کے ساتھ خصوصی گفتگو کی، جو خواتین اور بچے کی پیدائش کی پریشانیوں پر کام کررہے ہیں۔

کرونا دور میں ہوئی زیادہ تر نارمل ڈلیوری

ایل این جے پی اسپتال میں سب سے زیادہ نارمل ڈلیوری

ڈاکٹر سریش کمار نے بتایا کہ کورونا کے باعث نافذ لاک ڈاؤن کے دوران سب سے زیادہ نارمل ڈلیوری ہوئی ہے، جس میں کورونا سے متاثر پانچ سو سے زیادہ ڈلیوری ایل این جے پی اسپتال میں ہوئی ہے، کیونکہ لاک ڈاؤن کے دوران کئی پرائیویٹ اسپتال متاثرہ خاتون کی ڈلیوری سے منع کر رہے تھے۔ ایسے میں زیادہ تر خواتین کی ڈلیوری ایل این جے پی اسپتال میں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اس دوران تقریباً 200 سیزیرین ڈلیوری ہوئی جبکہ 300 نارمل ڈلیوری ہوئی ہے۔

ڈلیوری کے دوران خطرہ ہونے پر کرنا پڑتا ہے سیزیرین

ڈاکٹر سریش نے بتایا کہ چونکہ سیزرین ڈلیوری میں ماں اور بچے دونوں کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہوتا ہے لہذا انفیکشن پھیلنے کا خدشہ بھی ہے اور بعد میں ماں کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور دوسرا بچہ پیدا ہونے کے دوران اسے بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں نارمل ڈلیوری بہتر ہوتی ہے، حالانکہ معائنے کے دوران اگر ڈاکٹر کو محسوس ہوتا ہے کہ نارمل ڈلیوری سے بچے یا ماں کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے یا پیٹ میں بچے کی نشوونما رک گئی ہے تو پیٹ کا آپریشن کر ڈلیوری کی جاتی ہے۔

کورونا انفیکشن کے خوف سے نہیں کیا گیا سیزیرین

ڈاکٹر نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران کیونکہ اسپتالوں میں کورونا مریضوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور متاثرہ ماؤں کی ڈلیوری بھی کرنی پڑ رہی تھی، اس کے باعث ڈاکٹروں کو خدشہ تھا کہ اگر سیزیرین ڈلیوری کی جائے تی تو انفیکشن پھیل سکتا ہے۔ اس لئے نارمل ڈلیوری پر زیادہ توجہ دی گئی۔ یہی وجہ رہی کہ کورونا کے دوران سب سے زیادہ اسپتالوں میں نارمل ڈلیوری ہوئی۔

ڈاکٹروں نے نارمل ڈلیوری کو ترجیہ دی

ڈاکٹر سریش کمار نے کہا کہ ہر ڈاکٹر کی ترجیح نارمل ڈلیوری ہوتی ہے۔ ہم یہاں میڈیکل طلبہ کو یہ بھی سکھاتے ہیں کہ نارمل ڈلیوری کو ترجیح دی جانی چاہئے لیکن اگر بچے یا ماں کی جان کو خطرہ ہو یا کوئی اور پریشانی ہو تو پھر سیزرین ڈیلیوری بھی کرنی ہوگی۔

سیزرین ڈلیوری میں خواتین کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے

اس کے ساتھ ہی خواتین نے سیزرین اور عام ڈلیوری کے متعلق کہا کہ سیزیرین میں اس وقت زیادہ پریشانی نہیں ہوتی ہے لیکن بجے کی پیدائش کے بعد تقریباً ایک مہینے تک مکمل طور پر آرام کرنا پڑتا ہے اور آپریشن کے دوران لگائے گئے ٹانکوں سے تکلیف ہوتی ہے اور دوسرے بچے کی پیدائش کے دوران بھی خواتین کو پریشانی ہوتی ہے۔

Last Updated : Feb 18, 2021, 11:25 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.