ETV Bharat / bharat

ملک میں اقتدار کے لیے نفرت کی سیاست کی جارہی ہے: مولانا ارشد مدنی

author img

By

Published : Sep 17, 2021, 8:16 PM IST

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ کچھ لوگ اقتدار کے لئے نفرت کی سیاست کررہے ہیں اس کے لئے ہمیں عام لوگوں کو بیدارکرنا ہوگا۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ اس ملک میں صدیوں سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو اتحاد قائم ہے اسے ٹوٹنے نہ دیں۔

مولانا ارشد مدنی
مولانا ارشد مدنی

کرناٹک میں میسور سے متصل ضلع گوڈاگو کے سداپور میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے ایک اجتماع کے دوران کہا کہ 'ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں کے ذریعہ نہیں بلکہ عرب مسلم تاجروں کے ذریعہ پھیلا، جن کے کردار و عمل کو دیکھ کر لوگ متاثر ہوئے اور انہوں نے کسی ڈر اور لالچ کے بغیر اسلام قبول کیا۔' انہوں نے یہ بات جمعیۃ علمائے ہند کے ذریعہ تعمیر شدہ مکانات کی چابیاں مستحقین میں تقسیم کرتے ہوئے کہی۔

اس اجتماع میں آج مولانا مدنی کے ہاتھوں 2019 کے تباہ کن سیلاب میں بے گھر ہوئے 30 لوگوں میں سے 16 لوگوں کو مکانات کی چابیاں دی گئیں، جن میں غیر مسلم بھی شامل ہیں۔

مولانا مدنی نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ بات سراسر بے بنیاد اور تاریخی طور پر غلط ہے کہ ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں کے ساتھ آیا، ہندوستان میں مسلمان سو دو سو سال سے نہیں بلکہ تیرہ سو سال سے آباد ہیں۔ مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسلام کی آمد سے پہلے ہندوستان اور عرب کے درمیان تجارتی و کاروباری تعلقات رہے ہیں۔ البتہ اسلام کی آمد کے بعد کچھ مسلم تاجر عرب سے کشتیوں کے ذریعہ کیرالا پہنچے اور یہیں آباد ہوگئے، ان کے پاس کوئی فوج اور طاقت نہیں تھی بلکہ یہ ان کا کردار اور اخلاق ہی تھا جس سے متاثر ہوکر یہاں کے مقامی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔


انہوں نے یہ بھی کہا کہ تاریخ کی کتابوں میں کیرالا کے کچھ راجاؤں کا بھی ذکر ملتا ہے، جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ ایک راجہ کے تعلق سے یہ ذکر بھی ہے کہ اس نے جب شق القمر کا معجزہ دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا۔ اپنے دربار کے نجومیوں سے اس بابت دریافت کیا تو انہوں نے جو کچھ بتایا اسے سن کر اس کے دل میں عرب جاکر آقاﷺ کی زیارت کرنے کی للک پیدا ہوئی۔ چنانچہ اس نے اپنی حکومت کو دوسروں کی نگرانی میں دیکر کشتی کے ذریعہ اپنے سفرکا آغاز کیا لیکن راستہ میں ہی اس کی موت واقع ہوگئی۔کیرالا میں ہندوستان کی سب سے پہلی مسجد اب بھی موجود ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ محمد بن قاسم کا واقعہ تو اس کے بہت بعد کا ہے، سندھ میں راجہ داہر کی شکست کے بعد جن لوگوں نے محمد بن قاسم سے پناہ طلب کی انہیں پناہ دی گئیں، چنانچہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے مسلمانوں کے اس سلوک سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا، اس کے لئے کسی طرح کی زور زبردستی کی گئی ہو اس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے اور پھر یہ بھی ہے کہ زور زبردستی کے ذریعہ کسی کو مسلمان نہیں کیا جاسکتا۔


مولانا مدنی نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اس ملک کی خصوصیت ہے کہ پچھلے تیرہ سو برس سے یہاں ہندو و مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ محبت واخوت کے ساتھ رہتے آئے ہیں، لیکن اب کچھ لوگ محبت و اتحاد کے اس پختہ رشتے کو توڑ دینا چاہتے ہیں، وہ نفرت اور غلط فہمیوں کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کرکے ایک مخصوص طبقہ کے خلاف محاذ آرائیاں کی جارہی ہیں اور اب حالات یہ ہیں کہ کشمیر سے لیکر کنیاکماری تک لوگ ڈر اور خوف کے سایہ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ایسے لوگوں کو شاید یہ بات معلوم نہیں ہے کہ یہ ملک اتحاد اور محبت سے ہی آباد رہ سکتا ہے اور اگر نفرت اور جنگ کی سیاست کی گئی توپھر یہ ملک تباہ ہوجائے گا۔

مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند پچھلے سو برس سے ہندستان میں محبتیں بانٹنے کا کام کررہی ہے، وہ اپنا امدادی و فلاحی کام بھی مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیاد پر کرتی ہے اس کی زندہ مثال یہ ہے کہ آج جن بے سہارا لوگوں کو کرناٹک کے مسلمانوں کے تعاون سے مکانات کی چابیاں دی گئی ہیں، ان میں غیر مسلم بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ اقتدار کے لئے نفرت کی سیاست کررہے ہیں اس کے لئے ہمیں عام لوگوں کو بیدارکرنا ہوگا۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ اس ملک میں صدیوں سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو اتحاد قائم ہے اسے ٹوٹنے نہ دیں۔ مسلمان ہندوؤں کی خوشی اور غم میں شامل ہوں۔ ہندو بھائی مسلمانوں کی خوشی اور غم میں شامل ہوں اس سے ہی سماج اورمعاشرے میں یکجہتی اور باہمی اتحادکو فروغ دیا جاسکتا ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ ہم مایوس نہیں ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ جب لوگ بیدار ہوجائیں گے، نفرت ہارے گی اور محبت جیتے گی۔

واضح رہے کہ سدا پور کا علاقہ کیرالا کی سرحد پر واقع ہے، کیرالا میں جب سیلاب آیا تھا تو کرناٹک کے ان علاقوں میں بھی تباہ کن سیلاب آیا تھا، کیرالامیں سیلاب متاثرین کی بازآبادکاری کا کام دوسال پہلے ہی مکمل ہوگیا تھا لیکن سداپور میں زمین کے حصول میں کچھ پریشانی تھی۔ اس لئے بازآبادکاری کے کام میں تاخیر ہوئی۔ اس کے بعد کورونا کی وبا آگئی جس سے تعمیر کا کام متاثر ہوا، تاہم جمعیۃ علماء کرناٹک کے ذمہ داران کی مسلسل کوششوں اور یہاں کے مسلمانوں کے تعاون کے نتیجہ میں یہ مشکل مرحلہ طے پاگیا۔ یہ مکانات چار سو اسکوائر فٹ پرمشتمل ہے اور ان کی تعمیر پر فی مکان تین لاکھ روپے (زمین کے علاوہ)لاگت آئی ہے،

قابل ذکر ہے کہ مہاراشٹر کے سیلاب متاثرین کی بازآبادکاری مہم میں جمعیۃ علماء ہند نے 33بے گھر ہوئے خاندانوں کی بازآبادکاری کے منصوبہ کو حتمی شکل دیدی ہے۔ ان میں 18 غیر مسلم خاندان ہیں، یہاں ایک مکان کی تعمیر پر لاگت کا تخمینہ تقریبا چارلاکھ روپے ہے، سیلاب متاثرین کی اس بازآبادکاری مہم میں کرناٹک کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مسلم سوسائٹی سداپور نے خاص طورسے ہر طرح کی مدد فراہم کی۔ مولانامدنی نے اپنے خطاب میں ذاتی طور پر ان تمام لوگوں کا شکریہ اداکیا۔

کرناٹک میں میسور سے متصل ضلع گوڈاگو کے سداپور میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے ایک اجتماع کے دوران کہا کہ 'ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں کے ذریعہ نہیں بلکہ عرب مسلم تاجروں کے ذریعہ پھیلا، جن کے کردار و عمل کو دیکھ کر لوگ متاثر ہوئے اور انہوں نے کسی ڈر اور لالچ کے بغیر اسلام قبول کیا۔' انہوں نے یہ بات جمعیۃ علمائے ہند کے ذریعہ تعمیر شدہ مکانات کی چابیاں مستحقین میں تقسیم کرتے ہوئے کہی۔

اس اجتماع میں آج مولانا مدنی کے ہاتھوں 2019 کے تباہ کن سیلاب میں بے گھر ہوئے 30 لوگوں میں سے 16 لوگوں کو مکانات کی چابیاں دی گئیں، جن میں غیر مسلم بھی شامل ہیں۔

مولانا مدنی نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ بات سراسر بے بنیاد اور تاریخی طور پر غلط ہے کہ ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں کے ساتھ آیا، ہندوستان میں مسلمان سو دو سو سال سے نہیں بلکہ تیرہ سو سال سے آباد ہیں۔ مورخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسلام کی آمد سے پہلے ہندوستان اور عرب کے درمیان تجارتی و کاروباری تعلقات رہے ہیں۔ البتہ اسلام کی آمد کے بعد کچھ مسلم تاجر عرب سے کشتیوں کے ذریعہ کیرالا پہنچے اور یہیں آباد ہوگئے، ان کے پاس کوئی فوج اور طاقت نہیں تھی بلکہ یہ ان کا کردار اور اخلاق ہی تھا جس سے متاثر ہوکر یہاں کے مقامی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔


انہوں نے یہ بھی کہا کہ تاریخ کی کتابوں میں کیرالا کے کچھ راجاؤں کا بھی ذکر ملتا ہے، جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ ایک راجہ کے تعلق سے یہ ذکر بھی ہے کہ اس نے جب شق القمر کا معجزہ دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا۔ اپنے دربار کے نجومیوں سے اس بابت دریافت کیا تو انہوں نے جو کچھ بتایا اسے سن کر اس کے دل میں عرب جاکر آقاﷺ کی زیارت کرنے کی للک پیدا ہوئی۔ چنانچہ اس نے اپنی حکومت کو دوسروں کی نگرانی میں دیکر کشتی کے ذریعہ اپنے سفرکا آغاز کیا لیکن راستہ میں ہی اس کی موت واقع ہوگئی۔کیرالا میں ہندوستان کی سب سے پہلی مسجد اب بھی موجود ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ محمد بن قاسم کا واقعہ تو اس کے بہت بعد کا ہے، سندھ میں راجہ داہر کی شکست کے بعد جن لوگوں نے محمد بن قاسم سے پناہ طلب کی انہیں پناہ دی گئیں، چنانچہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے مسلمانوں کے اس سلوک سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا، اس کے لئے کسی طرح کی زور زبردستی کی گئی ہو اس کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے اور پھر یہ بھی ہے کہ زور زبردستی کے ذریعہ کسی کو مسلمان نہیں کیا جاسکتا۔


مولانا مدنی نے مزید کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اس ملک کی خصوصیت ہے کہ پچھلے تیرہ سو برس سے یہاں ہندو و مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ محبت واخوت کے ساتھ رہتے آئے ہیں، لیکن اب کچھ لوگ محبت و اتحاد کے اس پختہ رشتے کو توڑ دینا چاہتے ہیں، وہ نفرت اور غلط فہمیوں کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کرکے ایک مخصوص طبقہ کے خلاف محاذ آرائیاں کی جارہی ہیں اور اب حالات یہ ہیں کہ کشمیر سے لیکر کنیاکماری تک لوگ ڈر اور خوف کے سایہ میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ایسے لوگوں کو شاید یہ بات معلوم نہیں ہے کہ یہ ملک اتحاد اور محبت سے ہی آباد رہ سکتا ہے اور اگر نفرت اور جنگ کی سیاست کی گئی توپھر یہ ملک تباہ ہوجائے گا۔

مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند پچھلے سو برس سے ہندستان میں محبتیں بانٹنے کا کام کررہی ہے، وہ اپنا امدادی و فلاحی کام بھی مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیاد پر کرتی ہے اس کی زندہ مثال یہ ہے کہ آج جن بے سہارا لوگوں کو کرناٹک کے مسلمانوں کے تعاون سے مکانات کی چابیاں دی گئی ہیں، ان میں غیر مسلم بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ اقتدار کے لئے نفرت کی سیاست کررہے ہیں اس کے لئے ہمیں عام لوگوں کو بیدارکرنا ہوگا۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ اس ملک میں صدیوں سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جو اتحاد قائم ہے اسے ٹوٹنے نہ دیں۔ مسلمان ہندوؤں کی خوشی اور غم میں شامل ہوں۔ ہندو بھائی مسلمانوں کی خوشی اور غم میں شامل ہوں اس سے ہی سماج اورمعاشرے میں یکجہتی اور باہمی اتحادکو فروغ دیا جاسکتا ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ ہم مایوس نہیں ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ جب لوگ بیدار ہوجائیں گے، نفرت ہارے گی اور محبت جیتے گی۔

واضح رہے کہ سدا پور کا علاقہ کیرالا کی سرحد پر واقع ہے، کیرالا میں جب سیلاب آیا تھا تو کرناٹک کے ان علاقوں میں بھی تباہ کن سیلاب آیا تھا، کیرالامیں سیلاب متاثرین کی بازآبادکاری کا کام دوسال پہلے ہی مکمل ہوگیا تھا لیکن سداپور میں زمین کے حصول میں کچھ پریشانی تھی۔ اس لئے بازآبادکاری کے کام میں تاخیر ہوئی۔ اس کے بعد کورونا کی وبا آگئی جس سے تعمیر کا کام متاثر ہوا، تاہم جمعیۃ علماء کرناٹک کے ذمہ داران کی مسلسل کوششوں اور یہاں کے مسلمانوں کے تعاون کے نتیجہ میں یہ مشکل مرحلہ طے پاگیا۔ یہ مکانات چار سو اسکوائر فٹ پرمشتمل ہے اور ان کی تعمیر پر فی مکان تین لاکھ روپے (زمین کے علاوہ)لاگت آئی ہے،

قابل ذکر ہے کہ مہاراشٹر کے سیلاب متاثرین کی بازآبادکاری مہم میں جمعیۃ علماء ہند نے 33بے گھر ہوئے خاندانوں کی بازآبادکاری کے منصوبہ کو حتمی شکل دیدی ہے۔ ان میں 18 غیر مسلم خاندان ہیں، یہاں ایک مکان کی تعمیر پر لاگت کا تخمینہ تقریبا چارلاکھ روپے ہے، سیلاب متاثرین کی اس بازآبادکاری مہم میں کرناٹک کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مسلم سوسائٹی سداپور نے خاص طورسے ہر طرح کی مدد فراہم کی۔ مولانامدنی نے اپنے خطاب میں ذاتی طور پر ان تمام لوگوں کا شکریہ اداکیا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.