گیا: ملکی سطح پر مدارس اسلامیہ کے خلاف ہندو شدت پسندوں کی جانب سے اکثر و بیشتر متنازع بیانات دیے جاتے رہتے ہیں لیکن مدارس کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے بہت سے لوگ تعریف بھی کرتے ہیں۔ گیا میں ایک ایسا مدرسہ ہے جس سے براہ راست محکمہ پولیس جڑا ہوا ہے۔ شہر گیا میں واقع پولیس لائن ہے جو ضلع پولیس کا ہیڈ کوارٹر ہے اس سے ایک مدرسہ اور ایک عالیشان مسجد متصل ہے۔ یہاں پولیس لائن میں مدرسہ اہلسنت مدینة العلوم یتیم خانہ کے نام سے ایک مدرسہ ہے، جو تقریبا دس کھٹھے سے زیادہ جگہ پر واقع ہے۔ اس مدرسہ میں دیگر مدارس کی طرح ہی تعلیمی نظام حفظ قرآن، عالمیت کی ابتدائی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کا نظم ہے۔ طلبہ کی تعداد سو کے قریب ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ نہ صرف پولیس لائن میں واقع ہے بلکہ اسے مسلم پولیس اہلکار ہی چلاتے ہیں۔ اس مدرسہ کی دیواروں پر پولیس کے اعلیٰ افسران کے ناموں کی تختیاں لگی ہوئی ہیں، جنہوں نے کسی عمارت یا باونڈری کا افتتاح کیا ہے۔ گزشتہ 30 سالوں سے مدرسہ انتظامیہ کمیٹی کے صدر، سکریٹری اور خزانچی پولیس کے مسلم اہلکار ہیں۔ کمیٹی میں شامل جس اہلکار کا تبادلہ ہوتا ہے تو اسکی جگہ پر پولیس کا دوسرا اہلکار شامل ہو جاتا ہے۔ سنہ 2002 میں ضلع کے سابق ایس پی روندرن شنکرن موجودہ وقت میں اے ڈی جی نے یہاں پولیس لائن میں تعینات پولیس اہلکاروں کی میٹنگ کرکے ایک نظام بنایا تھا کہ جتنے مسلم پولیس اہلکار یا افسران ضلع میں تعینات ہوں گے، انکی تنخواہ سے کچھ رقم جو انکی مرضی سے ہو وہ براہ راست مدرسہ کے کھاتے میں جائے گی اور اتنی رقم حذف کر کے ہی تنخواہ کی ادائیگی ہوتی تھی چونکہ پولیس محکمہ میں پہلے ' پے رول ' کا نظام تھا، اسلیے اس میں آسانی تھی، یہ سلسلہ برسوں تک جاری رہا تاہم پے رول کا نظام بند ہونے کے بعد پولیس اہلکار اپنے کھاتے میں تنخواہ آتے ہی وہ خود اتنی رقم کو مدرسہ کے کھاتے میں ٹرانسفر کردیتے ہیں یا پھر نقد رقم مدرسہ تک پہنچادیتے ہیں۔
مدرسہ اہلسنت مدینة العلوم یتیم خانہ کے مہتمم مولانا شبیر اشرفی بتاتے ہیں کہ مسجد اور اس کے احاطے میں واقع مزار حضرت انجان شہید کی تاریخ تین سو برس قدیم ہے تاہم مدرسہ کی بنیاد سنہ 1969میں حافظ جمیل عزیزی نے حافظ ملت مبارک پور کے ہاتھوں رکھوایا۔ مدرسہ قائم ہونے کے بعد بہتر ڈھنگ سے چلا بھی لیکن بعد میں اس کو چلانے میں دشواری پیش آنے لگی۔ اسی دوران یہاں پولیس لائن میں تعینات مسلم پولیس اہلکاروں نے اہل محلہ سے مدرسہ کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری لے لی اور محلے کے لوگوں کے صلاح ومشورے کے بعد ایک نظام بحال کیا گیا۔ تقریبا تیس برسوں سے پولیس کے جوان و افسران ہی اس مدرسہ کو چلارہے ہیں اور انکی دیکھ بھال میں کافی ترقی بھی ہوئی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ اس میں محلے کے لوگوں کاتعاون نہیں ہے بلکہ پولیس کمیٹی کو محلے کے ہرفرد کی جانب سے ہر طرح سے مدد کی جاتی ہے
سنہ 2003 تک مدرسہ کی جگہ پر باونڈری نہیں تھی چونکہ جس جگہ پر مدرسہ واقع ہے وہاں سے کچھ دوری پر مسلم آبادی ہے، اسلئے یہاں مدرسہ کے علاقے میں شام ہوتے ہی شرارتی لوگ پہنچ کر نشہ اور تاش بازی کرنے لگتے تھے۔ مدرسہ کے لوگوں کی طرف سے منع کرنے پر وہ جھگڑا کرنے پر آمادہ ہوجاتے تھے۔ اسکی اطلاع جب ایس پی روندرن شنکرن کو ملی تو، انہوں نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا اور وہ خود ہر شام مدرسہ پہنچ جاتے تھے۔ ایس پی کے پہنچتے ہی پولیس کے جوان حرکت میں آجاتے تھے۔ بعد ازاں ایس پی نے مسلم پولیس اہلکاروں کو جمع کرکے انکا حوصلہ بڑھایا اور باونڈری کرانے کا مشورہ دیا۔ جب یہاں باونڈری کا کام شروع ہوا تو روندرن شنکرن خود موجود رہے اور انہوں نے مقامی تھانہ کو ہدایت دی کہ باونڈری کے کام میں دخل دینے والوں پر کاروائی کریں۔ سابق ڈی آئی جی نیئرحسنین نے بھی اس مدرسہ کی ترقی اور پیش آنے والے مسائل کو حل کرانے میں اہم تعاون کیا ہے۔
مزید پڑھیں:۔ Teachers Waiting For Salary مدرسہ عالیہ کے اساتذہ گذشتہ پچیس ماہ سے تنخواہ کے منتظر
پولیس لائن مدرسہ میں ہربرس ایک بڑی دعوت افطار کا اہتمام ہوتا ہے۔ دعوت ضلع کے سنیئر ایس پی کی طرف سے ہوتی ہے اور انہی کے دستخط سے افطار پارٹی کا دعوت نامہ شہر میں تقسیم ہوتا ہے۔ پولیس کے اعلیٰ افسران سمیت ضلع کے سبھی بڑے افسران اور معززین کی شرکت ہوتی ہے۔ یہاں ضلع میں جو بھی ایس ایس پی ہوتے ہیں، وہ ایک بار ضرور مدرسہ کا جائزہ لینے آتے ہیں اور یہاں کی تعلیم وتربیت سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔ مدرسہ اہلسنت مدینة العلوم کے سکریٹری امتیاز احمد ( پولیس اہلکار) نے کہا کہ پولیس افسران کا بڑا تعاون ہوتا ہے۔ یہاں تعمیراتی کاموں میں کئی مسائل پیش آئے لیکن افسران کی مداخلت کے سبب فوری طور پر مسئلہ حل ہو گیا۔ یہاں تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ وہیں طالب علم محمد عرفان نے کہا کہ یہاں تعلیم، طعام اور قیام کا بہترین نظم ہے۔ میٹرک تک کی تیاری کیلئے بھی نظم کیا گیا ہے۔ پولیس کمیٹی کی طرف سے انہیں اسپورٹس میں بھی توجہ دی جاتی ہے۔ وہ اس برس حفظ قرآن مکمل کرچکے ہیں۔ اگلے برس وہ میٹرک کا امتحان بھی دیں گے۔ ہر دن قومی ترانہ کے ساتھ کلاس کا آغاز ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ مسلم پولیس اہلکاروں کی خدمات کی تعریف پولیس کے اعلیٰ افسران بھی کرتے رہے ہیں۔ یہاں دوسرے پولیس جوان بھی مسلم پولیس جوانوں کے شانہ بشانہ ہوتے ہیں۔