نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک میں مقامی فن، ثقافت اور دستکاری کو فروغ دینے کے بارے میں بڑھتی ہوئی بیداری کو 'اپنی وراثت پر فخر' کے احساس کا مظہر قرار دیا اور کہا کہ اس سے نہ صرف ملک کی شناخت بلکہ معیشت بھی مضبوط ہوگی۔PM Modi On Local Art
وزیر اعظم مودی نے یہ بات آج آل انڈیا ریڈیو پر اپنے ماہانہ پروگرام 'من کی بات' میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں اپنے فن اور ثقافت کے حوالے سے ایک نئی بیداری، ایک نیا شعور بیدار ہو رہا ہے۔ جس طرح فن، ادب اور ثقافت معاشرے کا اجتماعی سرمایہ ہیں، اسی طرح ان کو آگے لے جانا پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ ایسی ہی ایک کامیاب کوشش لکشدیپ میں ہو رہی ہے۔ یہاں کلپینی جزیرے پر ایک کلب ہے - کمیل برادرز چیلنجرز کلب۔ یہ کلب نوجوانوں کو مقامی ثقافت اور روایتی فنون کو محفوظ رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہاں نوجوانوں کو مقامی فن کولکالی، پریچاکلی، کلی پٹہ اور روایتی گانوں کی تربیت دی جاتی ہے۔ یعنی پرانا ورثہ نئی نسل کے ہاتھوں میں محفوظ ہو رہا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ ایسی کوششیں نہ صرف ملک میں بلکہ بیرون ملک بھی ہو رہی ہیں۔ حال ہی میں دبئی سے خبر آئی کہ وہاں کے کلاری کلب نے اپنا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کروا لیا ہے۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ دبئی کے کلب نے ریکارڈ بنایا ہے تو اس کا ہندستان سے کیا تعلق؟ درحقیقت، یہ ریکارڈ بھارت کے قدیم مارشل آرٹ کلاریپائیٹو سے متعلق ہے۔ یہ ریکارڈ ایک ساتھ کلاری پرفارم کرنے والے لوگوں کی سب سے بڑی تعداد کا ہے۔ کلاری کلب دبئی نے دبئی پولیس کے ساتھ مل کر یہ منصوبہ بنایا اور یو اے ای کے قومی دن میں نمائش کی۔ اس تقریب میں 4 سال کی عمر کے بچوں سے لے کر 60 سال تک کے لوگوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق کلاری کی مہارت کا مظاہرہ کیا۔ یہ ایک شاندار مثال ہے کہ کس طرح مختلف نسلیں ایک قدیم روایت کو آگے بڑھا رہی ہیں اور اسے پورے دل و جان سے آگے بڑھا رہی یہ اس کی انوکھی مثال ہے۔
کرناٹک کے گڈک ضلع میں رہنے والے 'کویم شری' کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ 'کویم شری' پچھلے 25 سالوں سے کرناٹک کے جنوب میں آرٹ کلچر کو زندہ کرنے کے مشن میں مسلسل مصروف ہے۔ اس سے قبل وہ ہوٹل مینجمنٹ کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ لیکن اپنی ثقافت اور روایت سے ان کا لگاؤ اتنا گہرا تھا کہ انہوں نے اسے اپنا مشن بنا لیا۔ انہوں نے 'کلا چیتنا' کے نام سے ایک پلیٹ فارم بنایا۔ یہ پلیٹ فارم آج کرناٹک اور بھارت اور بیرون ملک فنکاروں کے بہت سے پروگرام منعقد کرتا ہے۔ اس میں مقامی فن اور ثقافت کو فروغ دینے کے لیے بہت سے نئے کام بھی کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’’اپنے فن اور ثقافت کے تئیں ہم وطنوں کا یہ جوش و جذبہ ’اپنے ورثے پر فخر‘ کے احساس کا مظہر ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے بے شمار رنگ ہر کونے میں بکھرے پڑے ہیں۔ ہمیں انہیں سجانے اور محفوظ کرنے کے لیے بھی مسلسل کام کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے کئی علاقوں میں بانس سے بہت سی خوبصورت اور مفید چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ خاص طور پر قبائلی علاقوں میں بانس کے ماہر کاریگر، ہنر مند فنکار موجود ہیں۔ جب سے ملک نے بانس سے متعلق برطانوی دور کے قوانین میں تبدیلی کی ہے، تب سے اس کے لیے ایک بہت بڑا بازار تیار ہوا ہے۔ مہاراشٹر کے پالگھر جیسے علاقوں میں بھی قبائلی لوگ بانس سے بہت سی خوبصورت چیزیں بناتے ہیں۔ بکس، کرسیاں، چائے کے برتن، ٹوکریاں اور بانس سے بنی ٹرے جیسی اشیاء تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں۔ یہی نہیں یہ لوگ بانس کی گھاس سے خوبصورت کپڑے اور آرائشی اشیاء بھی بناتے ہیں۔ جس کی وجہ سے قبائلی خواتین کو روزگار بھی مل رہا ہے اور ان کی صلاحیتوں کو بھی پہچان مل رہی ہے۔
وزیر اعظم مودی نے کہا کہ کرناٹک کے شیوموگا سے تعلق رکھنے والا ایک جوڑا - سریش اور ان کی اہلیہ مسز میتھلی، سپاری کے ریشے سے بنی کئی منفرد مصنوعات کو غیر ملکی بازاروں تک پہنچا رہے ہیں۔ یہ لوگ سپاری کے ریشے سے ٹرے، پلیٹیں اور ہینڈ بیگ سے لے کر بہت سی آرائشی اشیاء بنا رہے ہیں۔ اس فائبر سے بنی چپل بھی آج کل بہت پسند کی جارہی ہے۔ آج ان کی مصنوعات لندن اور یورپ کے دیگر بازاروں میں فروخت ہوتی ہیں۔ یہ ہمارے قدرتی وسائل اور روایتی ہنر کی خوبی ہے، جسے سب پسند کر رہے ہیں۔
بھارت کے اس روایتی علم میں دنیا ایک پائیدار مستقبل کے راستے دیکھ رہی ہے۔ ہمیں خود بھی اس سمت میں زیادہ سے زیادہ بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں خود بھی ایسی دیسی اور مقامی مصنوعات کو استعمال کرنا چاہیے اور دوسروں کو تحفہ میں دینی چاہیئں۔ اس سے ہماری شناخت بھی مضبوط ہوگی، مقامی معیشت بھی مضبوط ہوگی اور بڑی تعداد میں لوگوں کا مستقبل روشن ہوگا۔
یواین آئی