کل ہند مجلس اتحاد المسلمین دہلی کے صدر کلیم الحفیظ نے شری رام کالونی میں مجلس کے نارتھ ایسٹ دفتر کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آزادی کے پچہتر سال بعد بھی ملک آزادی کے لیے ترس رہا ہے۔ اب ملک میں سچ بولنا جرم ہے۔ میڈیا کے لوگوں کے ساتھ بھی سچ بولنے پر مجرموں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔ تری پورہ کا سچ بیان کرنے پر ملک سے غداری کے مقدمات قائم کیے جارہے ہیں۔ اکثریت کے دلوں میں اقلیت سے نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں۔ یہ صورت حال ملک کے لیے تباہ کن ہے۔
کلیم الحفیظ نے کہا کہ ہمارے اور ہماری نسلوں کے لیے مستقبل کا سنگین مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ تمام سرکاریں مسلمانوں کو نظر انداز کر رہی ہیں۔ مسلم وزرا کے صرف لب ہی نہیں سل گئے ہیں بلکہ وہ مجمع میں ہندو دھرم کی پیروی کرنے پر مجبور ہیں۔ مسلمانوں کے ووٹ سے جیت کر آنے والے بھی ان کا نام لینے سے خوف کھا رہے ہیں۔ اب ایک ہی راستہ ہے کہ مسلمان اپنی قیادت کے بینر پر متحد ہوجائیں۔
مزید پڑھیں:۔ بھارت کی تقسیم کے ذمہ دار جناح ہیں، ملک کے مسلمان نہیں: اسد اویسی
صدر مجلس نے کہا کہ ملک کو مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کے بعد بیرسٹر اسدا لدین اویسی کی شکل میں ایک سچا اور بے باک رہنما مل گیا ہے۔ اب مسلمانوں کے پاس پارٹی بھی ہے، جھنڈا بھی ہے اور اسٹیج بھی ہے۔ مسلمانوں کے مسائل کا واحد حل یہی ہے کہ وہ تمام نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو چھوڑ کر اپنی قیادت کے تحت جمع ہوں، اپنی طاقت کا احساس کرائیں۔ اس بات سے نہ گھبرائیں کہ مسلمانوں کے اتحاد سے اکثریت میں اتحاد ہوجائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مسلمانوں کے خلاف اکثریت 2014 میں ہی متحد ہوچکی تھی۔ اکثریت کا اتحاد مسلمانوں کے اتحاد سے لازم و ملزوم نہیں ہے۔
کلیم الحفیظ نے کہا کہ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ تری پورہ فساد میں سچ بولنے والوں کو بھی جیلوں میں بھیجنے کی بات کی جارہی ہے۔ ان پر ملک سے غداری کے مقدمات قائم کیے جارہے ہیں۔ میڈیا کے لوگوں کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے۔
آزاد اظہار رائے پر یہ پابندی ملک کی جمہوریت کے لیے تباہ کن ہے۔ اس طرح جمہوریت، ڈکٹیٹر شپ میں بدل رہی ہے۔
دہلی کا تذکرہ کرتے ہوئے کلیم الحفیظ نے کہا کہ دہلی کی حکومت نے مسلمانوں کا 82 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے باوجود انہیں نظر انداز کردیا ہے۔ ان کی علاقوں میں نہ اسکولز ہیں، نہ اسپتالز، ان کے یہاں صرف گندگی کا راج ہے۔ اس کا علاج صرف یہی ہے کہ ایسی پارٹی کو ووٹ دیا جائے جس کے ایجنڈے میں مسلمان سر فہرست ہوں۔