ETV Bharat / bharat

Kaifi Azmi: ایک دن بہت بڑا شاعر بن کر دکھاؤں گا: کیفی اعظمی - کیفی اعظمی شاعری

اردو کے مشہور ترقی پسند شاعر کیفی اعظمی Urdu Poet Kaifi Azmi محفلوں میں نظمیں پڑھا کرتے تھے جس کے سبب انہیں ڈانٹ کھانی پڑتی تھی تب ہی انہوں نے اپنی والدہ سے کہا تھا کہ ایک دن بہت بڑا شاعر بن کر دکھاؤں گا۔

ترقی پسند شاعر کیفی اعظمی
ترقی پسند شاعر کیفی اعظمی
author img

By

Published : Jan 15, 2022, 5:47 PM IST

ہندی فلم اور اردو دنیا کے مشہور شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی میں شعر و شاعری کی صلاحیت بچپن سے ہی نظر آنے لگی تھی۔ کیفی اعظمی کی ولادت 14 جنوری 1919 کو اتر پردیش کے اعظم گڑھ ضلع کے مجواں گاؤں میں ہوئی تھی۔

ان کا پورا نام اطہر حسین رضوی تھا۔ ان کے والد زمیندار تھے جو انہیں اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے تھے اور اسی مقصد سے انہوں نے کیفی اعظمی کا داخلہ لکھنؤ کے مشہور مدرسے 'سلطان المدارس' میں کرادیا تھا۔

کیفی اعظمی نے محض گیارہ برس کی عمر سے ہی شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اکثر مشاعروں میں شرکت کرنے لگے تھے لیکن بیشتر لوگ جن میں ان کے والد بھی شامل تھے یہ سوچا کرتے تھے کہ کیفی اعظمی مشاعروں میں اپنی نہیں بلکہ اپنے بڑے بھائی کی غزلیں پڑھتے ہیں۔

ایک مرتبہ بیٹے کا امتحان لینے کے لیے ان کے والد نے انہیں ایک مصرعہ طرح دیا اور اس پرغزل لکھنے کو کہا۔ کیفی اعظمی نے اسے چیلنج کے طور پر قبول کیا اور پوری غزل لکھ ڈالی۔

ان کی یہ غزل کافی مقبول ہوئی جسے بعد میں مشہور گلوکارہ بیگم اختر نے اپنی آواز دی۔ غزل کا مطلع یوں تھا۔

اتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے

ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے

کیفی اعظمی محفلوں میں بہت شوق سے نظمیں پڑھا کرتے تھے، اس کے لئے انہیں کئی مرتبہ ڈانٹ بھی کھانی پڑتی تھی جس کے بعد وہ روتے ہوئے اپنی والدہ کے پاس جاتے اور کہتے 'اماں دیکھنا ایک دن میں بہت بڑا شاعر بن کر دکھاؤں گا'۔

کیفی اعظمی کبھی بھی اعلی تعلیم کی خواہش مند نہیں تھے ۔ مدرسہ میں اپنی تعلیم کے دوران وہاں کے غیر منظم حالات دیکھ کر انہوں نے طلبا یونین بنائی اور طالب علموں سے ہڑتال پر جانے کی اپیل کی۔

ان کی یہ ہڑتال تقریباً ڈیڑھ برس تک چلی۔ ان اس ہڑتال کی وجہ سے کیفی اعظمی مدرسہ انتظامیہ کے لیے درد سر بن گئےجس کی وجہ سے ہڑتال کے خاتمہ کے بعد انہیں مدرسہ سے نکال دیا گیا۔

اس ہڑتال سے کیفی اعظمی کو یہ فائدہ ہوا کہ اس وقت کے چند ترقی پسند مصنفین ان کی قیادت سے کافی متاثر ہوئے اور انہیں کیفی میں ایک ابھرتا ہوا شاعر دکھائی دیا۔ ان لوگوں نے انہیں حوصلہ دیا اور ہر ممکن مدد دینے کی پیشکش کی۔

اس کے بعد ایک طالب علم رہنما اطہر حسین میں ایک شاعر نے کیفی اعظمی کے طور پر جنم لے لیا۔

سال 1942 میں کیفی اعظمی اردو اور فارسی کی اعلی تعلیم کے لیے لکھنؤ اور الہ آباد بھیجے گئے لیکن انہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی رکنیت حاصل کرکے پارٹی کارکن کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا اور پھر بھارت چھوڑو تحریک میں شامل ہو گئے۔

اس دوران مشاعروں میں کیفی اعظمی کی شرکت جاری رہی۔ چنانچہ سال 1947 میں ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے وہ حیدرآباد پہنچے جہاں ان کی ملاقات شوکت سے ہوئی اور ان کی یہ ملاقات رشتہ ازدواج میں بدل گئی۔

آزادی کے بعد ان کے والد اور بھائی پاکستان چلے گئے لیکن کیفی اعظمی نے بھارت میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔

شادی کے بعد اخراجات بڑھنے کے سبب کیفی اعظمی نے ایک اردو اخبار کے لیے لکھنا شروع کر دیا جہاں انہیں 150 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔

کیفی اعظمی کی پہلی نظم 'سرفراز' لکھنؤ میں شائع ہوئی۔ انہوں نے روزنامہ اخبار کے لئے مزاحیہ اور طنزیہ شاعری شروع کی۔ اس کے بعد اپنے گھر کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے پیش نظر کیفی اعظمی نے فلموں کے لئے نغمے لکھنے کا فیصلہ کیا۔

کیفی اعظمی نے سب سے پہلے شاہد لطیف کی فلم 'بزدل'کے لیے دو نغمے لکھے جس کے عوض انہیں 1000 روپے ملے۔ اس کے بعد انہوں نے 1959 میں آئی فلم کاغذ کے پھول کے لئے 'وقت نے کیا کیا حسیں ستم، تم رہے نہ تم، ہم رہے نہ ہم' جیسا سدا بہار نغمہ تحریر کیا۔

اس کے بعد 1965 میں فلم 'حقیقت' کے نغموں بالخصوص 'کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیو، اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو' کی کامیابی کے ساتھ وہ کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔

کیفی اعظمی نے فلم 'گرم ہوا' کی کہانی، ڈائیلاگس اور اسکرین پلے لکھے جس کیلئے انہیں فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

فلم 'ہیر رانجھا' کے منظوم مکالموں کے ساتھ ساتھ انہوں نے شیام بینیگل کی فلم 'منتھن' کی اسکرپٹ بھی لکھی۔

تقریباً 75 برس کی عمر کے بعد کیفی اعظمی نے اپنے گاؤں مجواں میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے خوبصورت نغموں سے سامعین کو مسحور کرنے والے عظیم شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی 10 مئی 2002 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

  • کیفی اعظمی کی چند غزلیں درج ذیل ہیں۔

تم اتنا جو مسکرا رہے ہو

کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو

آنکھوں میں نمی ہنسی لبوں پر

کیا حال ہے کیا دکھا رہے ہو

بن جائیں گے زہر پیتے پیتے

یہ اشک جو پیتے جا رہے ہو

جن زخموں کو وقت بھر چلا ہے

تم کیوں انہیں چھیڑے جا رہے ہو

ریکھاؤں کا کھیل ہے مقدر

ریکھاؤں سے مات کھا رہے ہو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا

نئی زمین نیا آسماں نہیں ملتا

نئی زمین نیا آسماں بھی مل جائے

نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا

وہ تیغ مل گئی جس سے ہوا ہے قتل مرا

کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا

وہ میرا گاؤں ہے وہ میرے گاؤں کے چولھے

کہ جن میں شعلے تو شعلے دھواں نہیں ملتا

جو اک خدا نہیں ملتا تو اتنا ماتم کیوں

یہاں تو کوئی مرا ہم زباں نہیں ملتا

کھڑا ہوں کب سے میں چہروں کے ایک جنگل میں

تمہارے چہرے کا کچھ بھی یہاں نہیں ملتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شور یوں ہی نہ پرندوں نے مچایا ہوگا

کوئی جنگل کی طرف شہر سے آیا ہوگا

پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو تھا

جسم جل جائیں گے جب سر پہ نہ سایہ ہوگا

بانیٔ جشن بہاراں نے یہ سوچا بھی نہیں

کس نے کانٹوں کو لہو اپنا پلایا ہوگا

بجلی کے تار پہ بیٹھا ہوا ہنستا پنچھی

سوچتا ہے کہ وہ جنگل تو پرایا ہوگا

اپنے جنگل سے جو گھبرا کے اڑے تھے پیاسے

ہر سراب ان کو سمندر نظر آیا ہوگا

ہندی فلم اور اردو دنیا کے مشہور شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی میں شعر و شاعری کی صلاحیت بچپن سے ہی نظر آنے لگی تھی۔ کیفی اعظمی کی ولادت 14 جنوری 1919 کو اتر پردیش کے اعظم گڑھ ضلع کے مجواں گاؤں میں ہوئی تھی۔

ان کا پورا نام اطہر حسین رضوی تھا۔ ان کے والد زمیندار تھے جو انہیں اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتے تھے اور اسی مقصد سے انہوں نے کیفی اعظمی کا داخلہ لکھنؤ کے مشہور مدرسے 'سلطان المدارس' میں کرادیا تھا۔

کیفی اعظمی نے محض گیارہ برس کی عمر سے ہی شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اکثر مشاعروں میں شرکت کرنے لگے تھے لیکن بیشتر لوگ جن میں ان کے والد بھی شامل تھے یہ سوچا کرتے تھے کہ کیفی اعظمی مشاعروں میں اپنی نہیں بلکہ اپنے بڑے بھائی کی غزلیں پڑھتے ہیں۔

ایک مرتبہ بیٹے کا امتحان لینے کے لیے ان کے والد نے انہیں ایک مصرعہ طرح دیا اور اس پرغزل لکھنے کو کہا۔ کیفی اعظمی نے اسے چیلنج کے طور پر قبول کیا اور پوری غزل لکھ ڈالی۔

ان کی یہ غزل کافی مقبول ہوئی جسے بعد میں مشہور گلوکارہ بیگم اختر نے اپنی آواز دی۔ غزل کا مطلع یوں تھا۔

اتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے

ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے

کیفی اعظمی محفلوں میں بہت شوق سے نظمیں پڑھا کرتے تھے، اس کے لئے انہیں کئی مرتبہ ڈانٹ بھی کھانی پڑتی تھی جس کے بعد وہ روتے ہوئے اپنی والدہ کے پاس جاتے اور کہتے 'اماں دیکھنا ایک دن میں بہت بڑا شاعر بن کر دکھاؤں گا'۔

کیفی اعظمی کبھی بھی اعلی تعلیم کی خواہش مند نہیں تھے ۔ مدرسہ میں اپنی تعلیم کے دوران وہاں کے غیر منظم حالات دیکھ کر انہوں نے طلبا یونین بنائی اور طالب علموں سے ہڑتال پر جانے کی اپیل کی۔

ان کی یہ ہڑتال تقریباً ڈیڑھ برس تک چلی۔ ان اس ہڑتال کی وجہ سے کیفی اعظمی مدرسہ انتظامیہ کے لیے درد سر بن گئےجس کی وجہ سے ہڑتال کے خاتمہ کے بعد انہیں مدرسہ سے نکال دیا گیا۔

اس ہڑتال سے کیفی اعظمی کو یہ فائدہ ہوا کہ اس وقت کے چند ترقی پسند مصنفین ان کی قیادت سے کافی متاثر ہوئے اور انہیں کیفی میں ایک ابھرتا ہوا شاعر دکھائی دیا۔ ان لوگوں نے انہیں حوصلہ دیا اور ہر ممکن مدد دینے کی پیشکش کی۔

اس کے بعد ایک طالب علم رہنما اطہر حسین میں ایک شاعر نے کیفی اعظمی کے طور پر جنم لے لیا۔

سال 1942 میں کیفی اعظمی اردو اور فارسی کی اعلی تعلیم کے لیے لکھنؤ اور الہ آباد بھیجے گئے لیکن انہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی رکنیت حاصل کرکے پارٹی کارکن کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا اور پھر بھارت چھوڑو تحریک میں شامل ہو گئے۔

اس دوران مشاعروں میں کیفی اعظمی کی شرکت جاری رہی۔ چنانچہ سال 1947 میں ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے وہ حیدرآباد پہنچے جہاں ان کی ملاقات شوکت سے ہوئی اور ان کی یہ ملاقات رشتہ ازدواج میں بدل گئی۔

آزادی کے بعد ان کے والد اور بھائی پاکستان چلے گئے لیکن کیفی اعظمی نے بھارت میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔

شادی کے بعد اخراجات بڑھنے کے سبب کیفی اعظمی نے ایک اردو اخبار کے لیے لکھنا شروع کر دیا جہاں انہیں 150 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔

کیفی اعظمی کی پہلی نظم 'سرفراز' لکھنؤ میں شائع ہوئی۔ انہوں نے روزنامہ اخبار کے لئے مزاحیہ اور طنزیہ شاعری شروع کی۔ اس کے بعد اپنے گھر کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے پیش نظر کیفی اعظمی نے فلموں کے لئے نغمے لکھنے کا فیصلہ کیا۔

کیفی اعظمی نے سب سے پہلے شاہد لطیف کی فلم 'بزدل'کے لیے دو نغمے لکھے جس کے عوض انہیں 1000 روپے ملے۔ اس کے بعد انہوں نے 1959 میں آئی فلم کاغذ کے پھول کے لئے 'وقت نے کیا کیا حسیں ستم، تم رہے نہ تم، ہم رہے نہ ہم' جیسا سدا بہار نغمہ تحریر کیا۔

اس کے بعد 1965 میں فلم 'حقیقت' کے نغموں بالخصوص 'کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیو، اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو' کی کامیابی کے ساتھ وہ کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔

کیفی اعظمی نے فلم 'گرم ہوا' کی کہانی، ڈائیلاگس اور اسکرین پلے لکھے جس کیلئے انہیں فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

فلم 'ہیر رانجھا' کے منظوم مکالموں کے ساتھ ساتھ انہوں نے شیام بینیگل کی فلم 'منتھن' کی اسکرپٹ بھی لکھی۔

تقریباً 75 برس کی عمر کے بعد کیفی اعظمی نے اپنے گاؤں مجواں میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے خوبصورت نغموں سے سامعین کو مسحور کرنے والے عظیم شاعر اور نغمہ نگار کیفی اعظمی 10 مئی 2002 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

  • کیفی اعظمی کی چند غزلیں درج ذیل ہیں۔

تم اتنا جو مسکرا رہے ہو

کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو

آنکھوں میں نمی ہنسی لبوں پر

کیا حال ہے کیا دکھا رہے ہو

بن جائیں گے زہر پیتے پیتے

یہ اشک جو پیتے جا رہے ہو

جن زخموں کو وقت بھر چلا ہے

تم کیوں انہیں چھیڑے جا رہے ہو

ریکھاؤں کا کھیل ہے مقدر

ریکھاؤں سے مات کھا رہے ہو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا

نئی زمین نیا آسماں نہیں ملتا

نئی زمین نیا آسماں بھی مل جائے

نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا

وہ تیغ مل گئی جس سے ہوا ہے قتل مرا

کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا

وہ میرا گاؤں ہے وہ میرے گاؤں کے چولھے

کہ جن میں شعلے تو شعلے دھواں نہیں ملتا

جو اک خدا نہیں ملتا تو اتنا ماتم کیوں

یہاں تو کوئی مرا ہم زباں نہیں ملتا

کھڑا ہوں کب سے میں چہروں کے ایک جنگل میں

تمہارے چہرے کا کچھ بھی یہاں نہیں ملتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شور یوں ہی نہ پرندوں نے مچایا ہوگا

کوئی جنگل کی طرف شہر سے آیا ہوگا

پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو تھا

جسم جل جائیں گے جب سر پہ نہ سایہ ہوگا

بانیٔ جشن بہاراں نے یہ سوچا بھی نہیں

کس نے کانٹوں کو لہو اپنا پلایا ہوگا

بجلی کے تار پہ بیٹھا ہوا ہنستا پنچھی

سوچتا ہے کہ وہ جنگل تو پرایا ہوگا

اپنے جنگل سے جو گھبرا کے اڑے تھے پیاسے

ہر سراب ان کو سمندر نظر آیا ہوگا

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.