علم کی اہمیت اور اس کی فضلیت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے؟ ہردور میں اور ہرزمانہ میں علم کی اہمیت تسلیم کی گئی ہے۔
زمانہ قدیم سے آج تک علم کا چشمہ جاری ہے۔ اس کا واحد ذریعہ کتب و رسائل ہیں۔ جو مختلف لائبریری و کتب خانے کی شکل میں موجود ہیں.
کتاب کی دکانیں علمی پیاس بجھانے والوں کے لئے کسی میخانے سے کم نہیں۔ جہاں علم و ادب کی گلیوں کی خاک چھاننے والے علم دوست و ادب نوازوں کو ذہنی آسودگی ملتی ہے.
ریاست بہار کے دارلحکومت پٹنہ میں واقع"بک امپوریم" نامی ایک ایسا کتب خانہ ہے جسے اردو دنیا کے ادباء و شعراء میں شاید ہی کوئی ایسے ہوں جو اس کتب خانہ سے واقف نہیں ہوں۔
پٹنہ کے سبزی باغ میں واقع بک امپوریم 1964 میں قائم ہوا۔ جس کے بانی مرحوم حمید انور تھے، اس سے قبل یہ کتب خانہ حبیبیہ ہوٹل والی گلی میں قائم شاد مارکیٹ میں تھا.
حمید انور صرف ایک دکاندار نہیں بلکہ شعراء و ادباء کے بڑے قدرداں اور اردو زبان و ادب کے بے لوث خادم تھے۔یہی وجہ ہے کہ زمانہ قدیم سے بک امپوریم بہار کے نامور ادیب،شاعر، افسانہ نگار، ناول نگار، تنقید نگار، مصنف، مؤلف، صحافی و سیاسی دانشوروں کی آماجگاہ رہی.
اس ضمن میں حمید انور کے صاحبزادے ڈاکٹر ممتاز فرخ نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت میں تفصیلی روشنی ڈالی۔
بک امپوریم کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ شام ہوتے ہی یہاں محبان ارودو اور ادب نواز جمع ہونے لگتے ہیں،کھڑے کھڑے ہی مختلف ادبی موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں،منصوبہ سازی ہوتی ہیں، علمی و ادبی تحریک کی بنیاد پڑتی ہے۔
طلبہ کھڑے کھڑے ہی مطالعہ کی ضرورت پوری کر علمی، ادبی، سیاسی و سماجی موضوعات پر آئی کتابوں سے خود کو اپڈیٹ کر لیتے ہیں.
عرصہ دراز سے بک امپوریم کا نام اردو کی بیشتر کتابوں میں" کتاب ملنے کا پتہ" کے طور پر درج ہوتا رہا ہے.
ریاست و بیرون ریاست میں اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی شخص پٹنہ آنے کے بعد بک امپوریم جانا اپنے ترجیحات میں شامل رکھتا ہے.
بک امپوریم دیکھنے میں کتب و رسائل کی ایک چھوٹی سی دکان ہے مگر یہاں ریاست و بیرون ریاست کے مختلف اداروں کی وقیع ادبی کتابیں و رسالے موجود ہوتی ہیں۔
بک امپوریم نے خود بھی کئی اہم موضوعات پر کتابیں شائع کیں ہیں۔ جن میں کلیم الدین احمد کی اردو تنقید پر ایک نظر، اردو شاعری پر ایک نظر، منشی پریم چند کی واردات، ڈپٹی نذیر احمد کی توبتہ النصوح تلخیص پروفیسر اعجاز علی ارشد وغیرہ شامل ہیں.
بک امپوریم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ نئی ادبی اطلاعات دینے کا ایک وسیلہ بھی ہے ساتھ ہی بلا معاوضہ ادباء و شعراء کے لیے ایک پوسٹ آفس کا کام بھی انجام دیتا ہے۔
بعض اوقات ایسے لوگوں کے نام سے بھی شعراء کے خطوط اور کتابیں بک امپوریم کے پتہ پر آتی ہیں جنہیں خود بک امپوریم والے نہیں جانتے۔
مزید پڑھیں:
اردو زبان کی ترویج و ارتقاء میں بی ایچ یو، اے ایم یو کا کردار
آج بک امپوریم ادباء و شعراء کے لئے نہ صرف توجہ کا مرکز ہے، بلکہ اس کی حیثیت ایک علمی مرکزیت کی ہے، جہاں فطری ذوق و شوق کی تکمیل کرنے والے ادباء، شعراء، صحافی و دیگر دانشور اپنی اپنی شام کو ادبی شام بناتے ہیں.