ETV Bharat / bharat

بھارتی ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے ڈیزائن پر پاکستان نے کیا اعتراض

انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت دو روزہ نشست کے پہلے دن پاکستان نے بھارت کے پن بجلی منصوبوں کے ڈیزائن پر اعتراض کیا جبکہ بھارت نے اسے جائز بتایا ہے۔ میٹنگ کے دوران آج دونوں ممالک کے درمیان مزید بات چیت ہوگی۔

hydropower projects
hydropower projects
author img

By

Published : Mar 24, 2021, 9:23 AM IST

Updated : Mar 24, 2021, 12:57 PM IST

جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی ریاست کا درجہ واپس لیے جانے اور آرٹیکل 370 میں ترمیم کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر بھارت کے خلاف ایک نئے مسئلے پر اعتراض کیا ہے۔ منگل کو بھارت اور پاکستان کے انڈس کمیشن کے کمشنروں کی نشست کے دوران پاکستان نے جموں و کشمیر میں پاپل دُل اور لوور کلنائی پن بجلی منصوبوں کے ڈیزائن پر اعتراض کیا حالانکہ بھارت نے ان منصوبوں کے دیزائن کو جائز قرار دیا ہے۔ آرٹیکل 370 میں ترمیم کے بعد پاکستان نے اس منصوبے کے متعلق جانکاری طلب کی تھی۔

دونوں ممالک کے درمیان اس میٹنگ میں انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت کئی معاملات پر بات چیت ہوئی۔ یہ میٹنگ دو سالوں بعد منعقد کی گئی ہے۔ اس سے قبل یہ نشست 2018 میں ہوئی تھی۔

اجلاس میں بھارتی نمائندوں کی قیادت بھارت کے انڈس کمیشن کے کمشنر یو کے سکسینا نے کی، ان کے ساتھ مرکزی آبی کمیشن، مرکزی الیکٹریسٹی پروجیکٹ اور نیشنل واٹر الیکٹریکل انرجی کارپوریشن کے صلاح کار موجود تھے۔

پاکول دُل منصوبہ (ایک ہزار میگا واٹ) کشمیر کے کشتواڑ میں دریائے چناب سے ملحقہ دریائے مروسودر پر بنانے کی تجویز ہے جبکہ لوور کلنائی، کشتواڑ اور ڈوڈہ ضلع میں بنانے کی تجویز ہے۔

پاکستان کی جانب سے پیر کی شام پہنچے نمائندوں کی قیادت انڈس کمشنر سید محمد مہر علی شان نے کی۔

اگست 2019 میں کشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ واپس لئے جانے کے بعد سے دونوں ممالک کے کمشنروں کے درمیان یہ پہلی نشست ہے۔ یہ میٹنگ اس لحاظ سے بھی کافی اہم ہے، کیونکہ حالیہ دنوں میں دونوں ممالک کی فوج نے سرحد پر جنگ بندی کے اصولوں پر سختی سے عمل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سال 2019 میں جموں و کشمیر اور لداخ کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقے بنا دئے گئے ہیں، جس کے بعد دونوں ممالک کے رشتے کشیدہ ہو گئے تھے۔

بھارت نے ان علاقون میں کئی ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کو منظوری دی ہے۔

ان میں لیہہ کے لیے ڈربوک شیوک (19 میگاواٹ)، شانکو (18.5 میگاواٹ)، نیمو چیلنگ (24 میگاواٹ)، رونگاڈو (12 میگاواٹ)، رتن ناگ (10.5 میگاواٹ) جبکہ کرگل کے لیے منگدوم سانگرا (19 میگاواٹ)، کرگل ہوندیرمن (25 میگاوٹ) اور تماشا(12 میگاوٹ) منصوے شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق پاکستان نے ان منصوبوں کے متعلق مزید تفصیلات کا مطالبہ کیا تھا۔

اس سے قبل میٹنگ مارچ 2020 میں ہونی تھی لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے اسے منسوخ کر دیا گیا تھا۔ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اجلاس منسوخ کر دیا گیا تھا۔

انڈس واٹر ٹریٹی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کے لیے بھارت نے جولائی 2020 میں پاکستان کو ڈیجیٹل میٹنگ کی تجویز پیش کی تھی لیکن پاکستان اٹاری بارڈر چوکی پر ہی ملاقات کے لیے اڑا تھا۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان سنہ 1960 میں انڈس واٹر ٹریٹی پر دستخط ہوئے تھے، اس معاہدے کی دفعات کے مطابق مشرقی دریاؤں، بیاس، راوی، ستلج کے پانی پر بھارت کا اور مغربی دریاؤں، سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر پاکستان کا حق ہے۔

جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی ریاست کا درجہ واپس لیے جانے اور آرٹیکل 370 میں ترمیم کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر بھارت کے خلاف ایک نئے مسئلے پر اعتراض کیا ہے۔ منگل کو بھارت اور پاکستان کے انڈس کمیشن کے کمشنروں کی نشست کے دوران پاکستان نے جموں و کشمیر میں پاپل دُل اور لوور کلنائی پن بجلی منصوبوں کے ڈیزائن پر اعتراض کیا حالانکہ بھارت نے ان منصوبوں کے دیزائن کو جائز قرار دیا ہے۔ آرٹیکل 370 میں ترمیم کے بعد پاکستان نے اس منصوبے کے متعلق جانکاری طلب کی تھی۔

دونوں ممالک کے درمیان اس میٹنگ میں انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت کئی معاملات پر بات چیت ہوئی۔ یہ میٹنگ دو سالوں بعد منعقد کی گئی ہے۔ اس سے قبل یہ نشست 2018 میں ہوئی تھی۔

اجلاس میں بھارتی نمائندوں کی قیادت بھارت کے انڈس کمیشن کے کمشنر یو کے سکسینا نے کی، ان کے ساتھ مرکزی آبی کمیشن، مرکزی الیکٹریسٹی پروجیکٹ اور نیشنل واٹر الیکٹریکل انرجی کارپوریشن کے صلاح کار موجود تھے۔

پاکول دُل منصوبہ (ایک ہزار میگا واٹ) کشمیر کے کشتواڑ میں دریائے چناب سے ملحقہ دریائے مروسودر پر بنانے کی تجویز ہے جبکہ لوور کلنائی، کشتواڑ اور ڈوڈہ ضلع میں بنانے کی تجویز ہے۔

پاکستان کی جانب سے پیر کی شام پہنچے نمائندوں کی قیادت انڈس کمشنر سید محمد مہر علی شان نے کی۔

اگست 2019 میں کشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ واپس لئے جانے کے بعد سے دونوں ممالک کے کمشنروں کے درمیان یہ پہلی نشست ہے۔ یہ میٹنگ اس لحاظ سے بھی کافی اہم ہے، کیونکہ حالیہ دنوں میں دونوں ممالک کی فوج نے سرحد پر جنگ بندی کے اصولوں پر سختی سے عمل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سال 2019 میں جموں و کشمیر اور لداخ کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقے بنا دئے گئے ہیں، جس کے بعد دونوں ممالک کے رشتے کشیدہ ہو گئے تھے۔

بھارت نے ان علاقون میں کئی ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کو منظوری دی ہے۔

ان میں لیہہ کے لیے ڈربوک شیوک (19 میگاواٹ)، شانکو (18.5 میگاواٹ)، نیمو چیلنگ (24 میگاواٹ)، رونگاڈو (12 میگاواٹ)، رتن ناگ (10.5 میگاواٹ) جبکہ کرگل کے لیے منگدوم سانگرا (19 میگاواٹ)، کرگل ہوندیرمن (25 میگاوٹ) اور تماشا(12 میگاوٹ) منصوے شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق پاکستان نے ان منصوبوں کے متعلق مزید تفصیلات کا مطالبہ کیا تھا۔

اس سے قبل میٹنگ مارچ 2020 میں ہونی تھی لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے اسے منسوخ کر دیا گیا تھا۔ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اجلاس منسوخ کر دیا گیا تھا۔

انڈس واٹر ٹریٹی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کے لیے بھارت نے جولائی 2020 میں پاکستان کو ڈیجیٹل میٹنگ کی تجویز پیش کی تھی لیکن پاکستان اٹاری بارڈر چوکی پر ہی ملاقات کے لیے اڑا تھا۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان سنہ 1960 میں انڈس واٹر ٹریٹی پر دستخط ہوئے تھے، اس معاہدے کی دفعات کے مطابق مشرقی دریاؤں، بیاس، راوی، ستلج کے پانی پر بھارت کا اور مغربی دریاؤں، سندھ، چناب اور جہلم کے پانی پر پاکستان کا حق ہے۔

Last Updated : Mar 24, 2021, 12:57 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.