نئی دہلی: تین سال پرانے فوجی تعطل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بھارت اور چین نے اتوار کو کور کمانڈر سطح کی بات چیت کا 18 واں دور مشرقی لداخ سیکٹر میں چشول-مولڈو میٹنگ پوائنٹ پر منعقد کر رہے ہیں۔ دفاعی ذرائع کے مطابق بھارت کی طرف سے میٹنگ کی قیادت فائر اینڈ فیوری کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل رشیم بالی کر رہے ہیں جبکہ چین کی طرف سے انہی کے مساوی رینک کا ایک افسر ہے۔ یہ ملاقات پانچ ماہ کے وقفے کے بعد ہو رہی ہے۔
دونوں فریقین کے درمیان کور کمانڈر کی سطح پر آخری ملاقات گزشتہ سال دسمبر میں ہوئی تھی۔ بات چیت میں دونوں فریقین نے قریبی رابطے میں رہنے اور فوجی اور سفارتی ذرائع سے بات چیت کو برقرار رکھنے اور بقیہ مسائل کے جلد از جلد باہمی طور پر قابل قبول حل پر کام کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ یہ ملاقات ایسے وقت ہو رہی ہے جب دونوں فریق اپنی اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے سرحدی علاقوں میں تیزی سے تعمیراتی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ چینی وزیر دفاع بھی قومی دارالحکومت میں اگلے ہفتے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے وزرائے دفاع کی میٹنگ میں شرکت کے لیے بھارت آنے والے ہیں۔ مستقبل قریب میں دونوں فریقوں کی طرف سے کشیدگی میں کمی کے امکانات زیادہ روشن نظر نہیں آتے اس لیے بھارتی فریق متنازع علاقے میں جمود کو تبدیل کرنے کی کسی بھی چینی کوششوں کے خلاف حفاظت کے لیے بھاری تعداد میں تعیناتی جاری رکھے ہوئے ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
- چینی وزیر دفاع بھی ایس سی او وزرائے دفاع اجلاس میں شرکت کریں گے
- پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو ایس سی او اجلاس میں شرکت کیلئے بھارت آئیں گے
واضح رہے کہ چین اور بھارت کے درمیان سرحدی خلاف ورزیوں کی ایک طویل تاریخ ہے۔ جون 2020 میں گلوان میں ایک جھڑپ دیکھنے میں آئی تھی جب چینی فوجیوں نے مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر جمود کو جارحانہ انداز میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ یہ جھڑپ مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے ساتھ چینی فوج کی کارروائیوں پر تعطل کے بعد ہوئی۔ 15 جون اور 16 جون 2020 کی درمیانی رات کو زیرو درجہ حرارت میں ہاتھ سے ہاتھ سے لڑی جانے والی وادی گلوان جھڑپ میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے۔ یہ تصادم بھارت اور چین کے درمیان چار دہائیوں میں سب سے مہلک تصادم تھا۔ تاہم، 2020 میں گلوان تصادم کے بعد تعطل کو حل کرنے کے لیے فوجی اور سفارتی مذاکرات کے اب سترہ دور ہو چکے ہیں۔ کچھ سرحدی مقامات پر دستبرداری ہوئی لیکن بڑے پیمانے پر مکمل طور پر دستبرداری پر ابھی بھی تعطل کا شکار ہے۔