الموڑا: اتراکھنڈ کے تاریخی شہر الموڑہ نے ملک کو کئی شخصیات دی ہیں۔ ان میں بھارت رتن پنڈت گووند بلبھ پنت اور رقص کے شہنشاہ ادے شنکر شامل ہیں۔ ایسی ہی ایک مشہور شخصیت کا نام آئرین پنت ہے جو بعد میں پاکستان کی پہلی خاتون اول بن گئیں۔آئرین پنت کو ان کی نمایاں خدمات پر پاکستان کے اعلیٰ ترین شہری اعزاز 'نشانِ امتیاز' اور 'مادرِ وطن' کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔ آئرین پنت کی ابتدائی تعلیم: آئرین پنت 13 فروری 1905 کو الموڑہ میں ڈینیئل پنت کے گھر پیدا ہوئیں۔ الموڑا اور نینی تال میں اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آئرین لکھنؤ چلی گئیں۔ جہاں انھوں نے لال باغ اسکول سے اپنی تعلیم مکمل کی اور لکھنؤ کے مشہور آئی ٹی (ازابیلا تھوبرن) کالج سے اقتصادیات اور مذہبی علوم میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔
آئرین پنت کی الموڑہ میں یادیں: الموڑہ کے میتھوڈسٹ چرچ کے بالکل نیچے واقع آئرین پنت کا پشتینی گھر آج بھی ان کی یادوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ اب اس مکان میں ان کے بھائی نارمن پنت کی بہو میرا پنت اور ان کے پوتے راہل پنت رہائش پذیر ہیں۔آئرین کی یادوں کے بارے میں ان کے پوتے راہل پنت کا کہنا ہے کہ ان کی یادیں اب بھی الموڑہ میں ہیں۔حالانکہ وہ شادی کے بعد ایک بار بھی الموڑہ نہیں آسکی تھیں لیکن اپنے بھائی نارمن پنت کو خط ضرور لکھتی تھیں۔ان خطوط میں الموڑہ کا ذکر ضرور تھا، وہ بتاتے ہیں کہ بی جے پی لیڈر مرلی منوہر جوشی کا گھر ان کے ساتھ ہی ہوا کرتا تھا۔ جب بھی وہ الموڑہ آتے تھے تو آئرین پنت کے گھر والوں کی خیریت دریافت کرنا نہیں بھولتے تھے۔
برہمن خاندان نے عیسائی مذہب اختیار کیا: آئرین پنت کے دادا نے 1887 میں عیسائی مذہب اختیار کر لیے تھے۔جب آئرین پنت کے دادا تاردت پنت نے عیسائیت اختیار کی تو یہ بات پورے علاقے میں آگ کی طرح پھیل گئی اور لوگ حیران تھے کہ ایک برہمن خاندان عیسائی کیسے ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد سے برادری کے لوگوں نے اس خاندان سے تمام تعلقات ختم کر لیے۔ آئرین کے بھائی کی بہو میرا پنت بتاتی ہیں کہ آئرین بہت بہادر خاتون تھیں، جب وہ لکھنؤ کے آئی ٹی کالج میں زیر تعلیم تھیں تو بہار میں سیلاب آ گیا تھا، سیلاب زدگان کی مدد کے لیے وہ ڈرامے اور ثقافتی پروگرام منعقد کر کے ان کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کا کام کر رہی تھیں۔میرا پنت نے بتایا کہ لیاقت علی خان سے فنڈز جمع کرنے کے دوران ملاقات کی ہوئی تھی۔
لیاقت علی خان اور آئرین پنت کی پہلی ملاقات: دراصل لکھنؤ کالج میں پڑھتے ہوئے ایک ثقافتی پروگرام کے لیے فنڈز جمع کرنے کے لیے آئرین پنت کو ٹکٹ فروخت کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔آئرین پنت پروگرام کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے ٹکٹ فروخت کرنے لکھنؤ اسمبلی چلی گئیں۔ وہاں ان کی ملاقات لیاقت علی خان سے ہوئی۔ پہلے تو لیاقت علی خان نے ٹکٹ خریدنے سے بچتے رہے لیکن کچھ اصرار کے بعد راضی ہوگئے۔آئرین نے ان سے کم از کم دو ٹکٹ خریدنے کی التجا کی جس پر لیاقت علی نے کہا کہ میں اپنے سوا کسی دوسرے کو نہیں جانتا جو میرے ساتھ پروگرام میں آئے گا، جس پر آئرین نے کہا کہ اگر آپ کے ساتھ بیٹھنے والا کوئی نہیں ہے تو وہ ان کے ساتھ ہی خود بیٹھیں گی۔ بس وہیں سے دونوں کی ملاقات کا مرحلہ شروع ہوا۔
آئرین کی لیاقت علی سے دوسری ملاقات: آئرین پنت تعلیم حاصل کرنے کے بعد اندرا پرستھ کالج دہلی میں ڈیڑھ سال تک پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اسی دوران آئرین کو اطلاع ملی کہ لیاقت علی خان یوپی قانون ساز اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے ہیں۔لیاقت علی کے کیرئیر میں اس پیش رفت سے خوش ہو کر آئرین نے فوری طور پر انہیں مبارکباد کا پیغام لکھا۔آئرین کا پیغام موصول ہونے کے بعد لیاقت علی نے اس کا جواب بھی دیا اور حیرت کا اظہار کیا کہ آئرین دہلی میں ہے، کیونکہ وہ کالج ان کے آبائی شہر کرنال کے قریب تھا۔ انھوں نے خواہش کا اظہار کیا کہ آئرین دہلی کے کناٹ پلیس وینجرز ریستوراں میں ان کے ساتھ چائے پیئے گیں۔
دہلی کے مہنگے ترین ہوٹل میں ہوئی شادی: لیاقت علی پہلے سے شادی شدہ تھے اور ان کا ایک بیٹا بھی تھا۔انھوں نے اپنی کزن جہانارا بیگم سے پہلی شادی کی تھی، لیکن آئرین کی شخصیت ایسی تھی کہ ان سے متاثر ہو کر لیاقت علی نے 16 اپریل 1933 کو آئرین سے دوسری شادی کر لی۔ ان کی شادی دہلی کے واحد سب سے مہنگے مشہور 'میڈنز ہوٹل' میں ہوئی تھی۔ پہلے یہ ہوٹل 'میٹرو پولیٹن ہوٹل' ہوا کرتا تھا۔1903 میں اس کا نام 'میڈینز' رکھا گیا۔ تاہم اب اس کا نام بدل کر 'اوبرائے میڈنز' رکھ دیا گیا ہے۔1994 میں اس ہوٹل کو ہیریٹیج ہوٹل کا درجہ دیا گیا۔
شادی کے بعد آئرین کا نام گلِ رعنا ہوگیا: شادی کے بعد آئرین نے اسلام قبول کر لیا اور ان کا نیا نام گلِ رعنا رکھا گیا۔ بیگم لیاقت علی خان نے نہ صرف تاریخ کو اپنی آنکھوں کے سامنے بنتے دیکھا بلکہ وہ خود بھی اس کا حصہ تھیں۔ اگست 1947 میں گلِ رعنا اپنے شوہر لیاقت علی اور ان کے دو بیٹوں اشرف اور اکبر کے ساتھ دہلی سے کراچی چلی گئیں۔ لیاقت علی پاکستان کے پہلے وزیر اعظم اور رعنا وہاں کی پہلی 'خاتون اول' بنیں۔ انہیں لیاقت کی کابینہ میں اقلیتی اور خواتین وزیر کا قلمدان دیا گیا۔
لیاقت علی خان کا قتل: اسی دوران 1947 میں بھارت سے علیحدگی کے بعد پاکستان بنا اور لیاقت علی نئے ملک کے پہلے وزیر اعظم بنے۔ رعنا پاکستان کی پہلی'خاتون اول' بن گئیں۔ اس کے ساتھ ہی لیاقت علی خان نے انہیں اقلیتی اور خواتین کی وزیر کے طور پر اپنی کابینہ میں جگہ دی۔سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ 16 اکتوبر 1951 کو لیاقت علی خان کو کمپنی باغ راولپنڈی میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران قتل کر دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد لوگوں کا خیال تھا کہ گل رعنا پاکستان چھوڑ کر بھارت جانے کا فیصلہ کر لیں گے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور آخری سانس تک پاکستان میں ہی رہیں۔خواتین کے حقوق کے لیے بہت جدوجہد کی۔ انھوں نے وہاں موجود بنیاد پرستوں کے خلاف بھی آواز اٹھائی۔رعنا نے پاکستان کے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔جب حق نے بھٹو کو پھانسی دی تو رعنا نے فوجی حکومت کے خلاف مہم تیز کر دی۔انہوں نے جنرل ضیاء کے اسلامی قانون کے نفاذ کے فیصلے کی بھی شدید مخالفت کی۔
تین سال بعد انہیں پہلے ہالینڈ اور پھر اٹلی میں پاکستان کا سفیر بنایا گیا۔ رانا لیاقت علی نے 13 جون 1990 کو آخری سانس لی۔ تقریباً 85 سال کی زندگی میں انہوں نے 43 سال بھارت میں اور تقریباً اتنے ہی سال پاکستان میں گزارے۔اگرچہ رعنا 1947 کے بعد تین مرتبہ بھارت تشریف لائیں لیکن وہ الموڑہ واپس نہیں گئیں۔ گلِ رعنا کو کئی پاکستانی اعزازات سے نوازا گیا: گل رعنا کو پاکستان میں مادر وطن کا خطاب دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں کابینہ کا وزیر بنایا اور وہ سندھ کے گورنر بھی رہیں۔ وہ کراچی یونیورسٹی کی پہلی خاتون وائس چانسلر بھی مقرر ہوئیں۔اس کے علاوہ وہ ہالینڈ، اٹلی، تیونس میں پاکستان کی سفیر رہیں۔انہیں اقوام متحدہ نے 1978 میں انسانی حقوق کے لیے اعزاز سے نوازا۔