آل انڈیا مسلم پرنسل لابورڈ نے حجاب تنازع کے تعلق سے ایک پریس نوٹ جاری کر کے کہا کہ حجاب کے تعلق سے صورت حال بہت ہی نازک ہے۔ ایک طرف پردہ شرعاً واجب ہے۔ ہم اس سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔ دوسری طرف فرقہ پرستوں نے اس کو مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکانے کا ایک عنوان بنالیا ہے اور نوجوان طلبہ و طالبات اس سے متائر ہو رہے ہیں۔
اس صورتحال کے پیش ںظر بورڈ کی لیگل کمیٹی اور عاملہ کے چند ارکان کی خصوصی میٹنگ رکھی گئی جس میں یہ بات طے پائی ہے کہ مسئلہ کو سڑک پر لانے کے بجائے قانونی طریقہ کار اور گفت و شنید کے ذریعہ حل کیا جائے۔
پھر یہ بات طے پائی کہ پہلے کرناٹک ہائی کورٹ میں قانونی لڑائی لڑئی جائے، یا تو جو لوگ اس معاملے میں پہلے سے فریق بن چکے ہیں، ان کے ساتھ مل کر مقدمہ کی پیروی کی جائے۔
اور اگرضرورت محسوس ہو ور ممکن ہو تو بورڈ براہ راست فریق بنے۔ چنانچہ کرناٹک ہائی کورٹ میں بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ وکلا بہتر طور پر مسلمانوں کے نقطہ نطر کو پیش کر رہے ہیں۔
اور بورڈ مسلسل ان سے رابطہ میں ہے۔ اگر کرناٹک میں مسئلہ حل نہ ہوتو سپرم کورٹ جایاجائے۔
ان حالات میں بورڈ سے وابستہ ارکان یا ذمہ داران کا احتجاجی ریلیوں میں شریک ہونا یا اس کی قیادت کرنا اور بورڈ کے اجازت کے بغیر میڈیا میں بیان دینا یا ٹی وی ڈیبیٹ میں حصہ لینا مناسب نہیں ہے۔ اس سے اندیشہ ہے کہ یہ مسئلہ بابری مسجد کی نوعیت اختیار کر لے۔
مزید پڑھیں:
Karnataka Hijab Row: ’سیاسی مفادات کے لیے حجاب معاملہ کو طول دیا جارہا ہے‘
اس لیے آپ سے درخواست ہے کہ فی الحال ایسے کسی عمل سے اجتناب کریں۔ اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں اور دعا کا اہتمام کریں۔ ورنہ اس سے فائدہ کی امید کم اور نقصان کا اندیشہ زیادہ ہے اور خطرہ ہے کہ گاؤں سے لے کر شہر تک تعلیمی اداروں میں ہندو مسلم طلبہ و طالبات میں اور ٹیچرز میں ٹکراؤ کا ماحول پیدا ہوجائے اور نفرت کا زہر نوجوان نسل میں پوری طرح سرایت کرجائے۔