پٹنہ: شہر پٹنہ کے سب سے مصروف ترین علاقوں میں سے ایک گاندھی میدان واقع کارگل چوک پر یوں تو صبح و شام ہزاروں گاڑیاں رینگتی ہوئی نظر آتی ہیں، دوڑ بھاگ کی زندگی میں سب بھاگتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر ان میں سے ایک ای رکشا ڈرائیور جب آنے جانے والے مسافروں کو پٹنہ جنگشن کی آواز لگاتا ہے تو لوگوں کی نظریں کچھ دیر کے لیے ٹھہر جاتی ہیں، آواز لگانے والا سر پر ٹوپی اور جسم پر کرتا پاجامہ زیب تن کئے رہتا ہے، آواز دینے کے باوجود جب کوئی سواری نہیں ملتی تو رکشا کے اندر بیٹھ کر ہی موبائل فون پر قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگتا ہے، رکشا چلانے والا کوئی عام ڈرائیور نہیں بلکہ حافظ قرآن ہے، جس کا نام محمد مکرم ہے۔Hafiz Mokarram Suffers From Economic Hardship
قرآن و حدیث میں جہاں حافظ قرآن کی بڑی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں وہیں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کل قیامت کے دن سورج سے بھی زیادہ چمکدار اور روشن تاج حافظ قرآن کو پہنایا جائے گا مگر غربت و افلاس میں زندگی بسر کرنے والا حافظ مکرم سورج کی تپش اور چلچلاتی دھوپ کے نیچے کھڑے ہو کر اپنے اہل و عیال کی کفالت اور دو وقت کی روٹی کے لیے رکشا چلانے پر مجبور ہے۔
حافظ مکرم بتاتے ہیں کہ انہوں نے کرجی کے ایک مدرسہ سے حفظ مکمل کی۔ اس کے بعد بچوں کو دینی تعلیم دے رہے تھے، ساتھ ہی ایک مسجد میں موذن کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دے رہے تھے، لاک ڈاؤن سے قبل سب کچھ ٹھیک تھا مگر کورونا وبا سے جہاں پوری دنیا متاثر ہوئی، اس کا اثر ان کے درس و تدریس پر بھی پڑا، کورونا بحران کے دوران زیادہ تر غریب گارجین نے بچوں کو پڑھانا چھوڑ دیا تو وہیں مسجد بند ہونے کی وجہ کر مسجد بھی چھوڑنی پڑی۔
حافظ مکرم بتاتے ہیں کہ حافظ قرآن ہوکر رکشا چلانا ان کی مجبوری ہے، کافی تگ و دو کے بعد ذریعہ معاش کے لئے جب کوئی بہتر جگہ نہیں ملی تو بوڑھے ماں باپ اور اہلیہ سمیت بچوں کی پرورش کے لئے انہیں نے یہ راستہ اختیار کیا۔ آج بھی ان کی خواہش ہے کہ وہ بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کریں، مگر انہیں کوئی موقع نہیں مل رہا، اگر دینی تنظیموں کی جانب سے انہیں درس و تدریس کے تعلق سے کوئی پیشکش آئی تو وہ انہیں نہ صرف قبول کریں گے بلکہ اسے اپنے لئے سعادت سمجھیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: لکھنؤ: نوجوان شاعر معاشی بدحالی کے سبب رکشہ چلانے پر مجبور
آج ضرورت ہے کہ معاشرے کے دانشور و سماجی و ملی تنظیموں کے سربراہ حافظ مکرم جیسے لوگوں کی صلاحیت کا استعمال صحیح جگہ لیں، تاکہ بے روزگاری کے سبب کسی بھی حافظ قرآن یا عالم دین کو رکشا چلانے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔