غلام نبی آزاد 7 مارچ 1949 کو جموں و کشمیر کے ضلع ڈوڈا کے سوتی نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک بھارتی سیاست دان ہیں جن کا تعلق انڈین نیشنل کانگریس سے ہے۔ آزاد کی سیاسی زندگی میں وہ سنہری وقت بھی 2005 میں آیا، جب وہ جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ بنے۔ آزاد کئی اہم وزارتوں پر فائز رہے ہیں۔ کانگریس نے اسمبلی انتخابات میں 21 سیٹیں جیتی تھیں جب آزاد جموں و کشمیر پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر تھے۔ اس کے نتیجے میں کانگریس ریاست کی دوسری سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری۔ Ghulam Nabi Azad Political Career
وہ 2005 سے 2008 تک جموں و کشمیر کے ساتویں وزیر اعلیٰ رہے۔ انہیں حال ہی میں عوامی امور کے شعبے میں بہترین کارکردگی پر مرکزی حکومت کی طرف سے 2022 میں بھارت کے تیسرے سب سے بڑے سول ایوارڈ پدم بھوشن سے نوازا گیا۔ غلام نبی آزاد نے اپنے گاؤں کے مقامی اسکول میں بنیادی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے جی جی ایم کالج سے سائنس میں بیچلر کیا اور بعد میں 1972 میں زولوجی میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
اغلام نبی آزاد Ghulam Nabi Azad کو اکثر اپنی پارٹی کا کرائسس مینیجر سمجھا جاتا ہے اور اپنی تنظیمی صلاحیتوں کی وجہ سے کافی زیادہ معروف تھے۔ راجیہ سبھا میں قائد حزب اختلاف کے طور پر، آزاد مختلف مسائل پر بی جے پی پر اپوزیشن کے کئی حملوں میں سب سے آگے رہے ہیں۔ کانگریس کے سینئر لیڈر غلام نبی آزاد نے آج 26 اگست 2022 کو پارٹی کی بنیادی رکنیت سمیت تمام عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کا یہ فیصلہ اس وقت آیا جب آزاد نے انتخابی مہم کمیٹی کے چیئرمین کے عہدے سے اور جموں و کشمیر کانگریس کی سیاسی امور کمیٹی سے اپنی تقرری کے چند گھنٹوں بعد استعفیٰ دے دیا۔
یہ بھی پڑھیں:
Azad to Form New Party کانگریس سے علیٰحدگی کے بعد غلام نبی آزاد پارٹی بنائیں گے
آزاد ایک تجربہ کار سیاست دان اور کانگریس پارٹی کے پرانے محافظ ہیں۔ وہ پانچ حکومتوں میں چار وزرائے اعظم کے ساتھ وزیر رہ چکے ہیں۔ وہ سات سال تک راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر رہے۔ وہ گزشتہ 37 برسوں سے کانگریس ورکنگ کمیٹی میں ہیں، وہ ہر ریاست میں پارٹی کے انچارج رہے ہیں۔ 2022 میں واحد کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد کو مودی حکومت کے دوران پدم بھوشن سے نوازا گیا۔ 2005 میں جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے، آزاد کو بالترتیب 1986 اور 1995-96 میں اس وقت کے وزرائے اعظم راجیو گاندھی اور پی وی نرسمہا راؤ نے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا امیدوار بننے کے لیے کہا لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ وہ پھولوں میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے اور انھیں ہی کشمیر میں مشہور ٹیولپ گارڈن تیار کرنے کا سہرا دیا جاتا ہے۔ جو ایشیا میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا باغ ہے۔
غلام نبی آزاد کا سیاسی سفر Ghulam Nabi Azad Political Career
- غلام نبی آزاد نے سیاست میں اپنے کیریئر کا آغاز 1973 میں کانگریس کمیٹی کے بلاک سکریٹری کے طور پر کیا۔ 1975 میں انہیں جموں و کشمیر یوتھ کانگریس کا صدر ان کی فعال کارکردگی کی وجہ سے مقرر کیا گیا۔
- 1980 میں انہیں یوتھ کانگریس کے آل انڈیا صدر کے طور پر ترقی دی گئی۔
- 1980 وہ میں مہاراشٹر کے واشم حلقے سے الیکشن جیت کر لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے۔ ایک رکن پارلیمنٹ کے طور پر، آزاد کو پہلے مرکزی نائب وزیر برائے قانون، انصاف اور کمپنی کے امور اور پھر مرکزی نائب وزیر برائے اطلاعات و نشریات کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔
- 1984 وہ میں رکن پارلیمنٹ بھی منتخب ہوئے اور 1990 سے 1996 کے درمیان راجیہ سبھا کے رکن رہے۔
- 1984-89 میں، وہ پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے لیے دوسری مدت کے لیے دوبارہ منتخب ہوئے۔ اس مرتبہ انہیں دسمبر 1984 سے مئی 1986 تک پارلیمانی امور کی وزارت میں مرکزی وزیر مملکت بنایا گیا۔ مئی 1986 - اکتوبر 1986 مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ امور، اکتوبر 1986 - ستمبر 1987 مرکزی وزیر مملکت خوراک اور سول سپلائیز
- 1990 میں وہ پہلی دفعہ راجیہ سبھا کے لیے منتخب ہوئے۔ اپنی پہلی مدت کے دوران، 1991 میں، انہیں پارلیمانی امور کے مرکزی وزیر کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ 1993 میں انہیں شہری ہوا بازی اور سیاحت کے مرکزی وزیر کا چارج دیا گیا۔
- 1996 میں آزاد کو ایوان بالا میں دوسری مدت ملی۔ اس مدت میں انہیں توانائی کی اسٹینڈنگ کمیٹی، ٹرانسپورٹ، سیاحت اور ثقافت کی اسٹنڈنگ کمیٹی اور وقف بورڈ کے کام کاج سے متعلق مشترکہ پارلیمانی کمیٹی میں بطور رکن مقرر کیا گیا۔
- 2002 میں، وہ تیسری مرتبہ راجیہ سبھا کے لیے دوبارہ منتخب ہوئے جس کے دوران وہ پارلیمانی امور کے مرکزی وزیر اور شہری ترقی کے وزیر کے طور پر منتخب ہوئے۔
- 2005 میں آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
- 2006 میں ریاست کی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹوں کے ساتھ جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے۔
- 2008 بھدرواہ سے جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے لیے دوبارہ منتخب ہوئے۔ دیا کرشنا کو 29936 ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔
- 2008 میں غلام نبی آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ بنے۔
- 2009 میں، وہ چوتھی مدت کے لیے راجیہ سبھا میں واپس آئے اور انہیں صحت اور خاندانی بہبود کی مرکزی وزارت کا انچارج بنایا گیا۔
- 2014 میں، وہ پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں اپوزیشن کے رہنما بن گئے۔
- 2015 میں آزاد راجیہ سبھا کے لیے پانچویں مدت کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ انہیں 2015 میں ہی بہترین پارلیمنٹیرین کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
- فروری 2021 میں غلام نبی آزاد راجیہ سبھا سے سبکدوش ہوگئے۔
- 26 اگست 2022 میں کانگریس پارٹی سے استعفیٰ دے دیا۔
بیرون ممالک کا دورہ
غلام نبی آزاد نے 1982 سے وزیر اور پارٹی جنرل سکریٹری کے طور پر مختلف شعبوں کے تحت میں دنیا کے 80 سے زائد ممالک کا وسیع پیمانے پر سفر کیا اور دنیا کے مختلف حصوں میں 80 سے زائد سرکاری وفود کی قیادت کی۔ ستمبر 2011 میں بھارت کی نمائندگی کرتے ہوئے غیر متعدی امراض کی روک تھام اور کنٹرول پر نیویارک میں 'یو این جنرل اسمبلی' سے خطاب کیا۔ مئی 2013 میں جنیوا میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں 66 ویں عالمی صحت اسمبلی سے خطاب کیا۔
کانگریس کے ساتھ آزاد کے بگڑتے رشتے کی شروعات
غلام نبی آزاد، راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے سابق لیڈر اور جی 23 کے ناراض لیڈروں کے ایک سرکردہ رکن ہیں جو کانگریس میں تنظیمی تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے انھیں پارٹی کے اندر سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ایوان بالا میں کانگریس لیڈر کے لئے اپنی الوداعی تقریر کے دوران آزاد کی تعریف کی تھی اور اس دوران وہ ضزاباتی بھی ہوگئے تھے۔
غلام نبی آزاد کانگریس نے چند روز قبل جموں و کشمیر میں انتخابی مہم کا انچارج بنائے جانے کے پارٹی کے فیصلے کو قبول کرنے سے معزرت کا اظہار کیا تھا لیکن اسوقت انہوں نے یہ عندیہ نہیں دیا تھا کہ وہ کانگریس کے سبھی عہدوں سے علیحدہ ہونے کا اعلان کرسکتے ہیں۔
کانگریس سے دیرینہ تعلقات کا خاتمہ
غلام نبی آزاد نے سونیا گاندھی کو لکھے اپنے استعفے کے خط میں اعتراف کیا ہے کہ کانگریس زوال کے اس نچلے پائیدان پر پہنچی ہے جس سے واپسی کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آتے۔انہوں نے اس صورتحال کیلئے کانگریہس کے سابق صدر اور سونیا گاندھی کے فرزند راہل گاندھی کو مؤرد الزام ٹھہرایا ہے۔آزاد نے اپنے خط میں کہا ہے کہ راہل گاندھی نے مشاورت کا نظام مکمل طور ختم کیا۔
انہوں نے راہل گاندھی کو طفلانہ اور غیر سنجیدہ بھی کہا ہے۔آزاد نے سونیا گاندھی کو لکھا ہے کہ راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس کو دو لوک سبھا انتخابات میں شکست فاش ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی میں ریموٹ کنٹرول کا نظام قائم کیا گیا جس سے پارٹی کی سالمیت متاثر ہوگئی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ درحقیقت، بھارت جوڈو یاترا شروع کرنے سے پہلے کانگریس قیادت کو ملک بھر میں کانگریس جوڑو یاترا شروع کرنی چاہیے تھی۔