کسان مرکز کے تین زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، مظاہرے کا آج 24 واں دن ہے۔ اب تک کسان اور حکومت کے مابین نتیجے کی جانب کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ اب سپریم کورٹ نے کمان سنبھال لی ہے، آج عدالت کے توسط سے ثالثی کا کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے کے حل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز دی ہے۔
خیال رہے کہ کسان رہنماؤں نے تینوں نئے زرعی قوانین کے خلاف اپنا موقف سخت کرتے ہوئے تینوں قوانین کو واپس لینے کے مطالبے پر بضد ہیں اور کہا کہ ان کی لڑائی اس سطح پر پہنچ چکی ہے جہاں وہ اسے جیتنے کے لیے پرعزم ہیں۔
کسان اپنے مطالبات کے لیے دہلی اور نوئیڈا کے درمیان چلہ بارڈر پر گزشتہ 24 دنوں سے سراپا احتجاج ہیں۔
دوسری طرف آل انڈیا کسان سبھا (اے آئی کے ایس) نے جمعہ کے روز کہا کہ تینوں نئے زرعی قوانین کے خلاف جاری کسانوں کے احتجاج کا حکومت کو حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے، نہ کہ سپریم کورٹ۔
متحدہ کسان مورچہ کے بینر تلے کسان تحریک میں شامل تقریباً 40 کسان تنظیموں میں سے ایک کسان سبھا 'دہلی چلو' مہم کی قیادت کررہی ہے اور کہتی ہے کہ پہلے ایک کسان تنظیم نے اس معاملے میں مداخلت کرنے کی درخواست نہیں کی ہے۔
عدالت نے کہا تھا کہ کسان تحریک کو بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رکھنے کی اجازت دی جانی چاہیے اور عدالت اس میں مداخلت نہیں کرے گی کیونکہ احتجاج کرنے کا حق آئین کا دیا ہوا بنیادی حق ہے۔
عدالت دہلی کی سرحدوں پر جاری احتجاج کے خلاف دائر مختلف درخواستوں پر سماعت کر رہی تھی۔
جمعہ کے اترپردیش کے سنبھل میں کسانوں کو پچاس پچاس ہزار روپے بھرنے کے لیے جاری کردہ نوٹس کو پولیس رپورٹ کی بنیاد پر انتظامیہ نے منسوخ کردیا۔
قابل ذکر ہے کہ کسان مرکز کے تینوں زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور اس قانون کو منسوخ کرنے کی مانگ کر رہے ہیں۔