انڈین کسان یونین کا کہنا ہے کہ ان قوانین کی وجہ سے کسان کارپوریٹ کی لالچ کے آگے کمزور ہوں گے۔ اسی درمیان مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے اہم بیان دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'سرکار مذاکرات کے بعد تینوں قانون میں ترمیم کے لیے تیار ہے۔
مرکزی وزیر زراعت کے مطابق سرکار ایم ایس پی کو برقرار رکھنےکے ساتھ زرعی پیداوار کی قیمتوں میں اضافہ کرنے اور کسانوں کو قانونی چارہ جوئی کے لیے عدالتوں تک رسائی دینے کے لیے آمادہ ہے۔
کسانوں پر کیس درج
کسانوں کو منانے کی کوششوں کے ساتھ سرکار نئے زرعی قانون کا کھل کر دفاع کرنے کی بھی تیاری کر رہی ہے۔ سنگھو بارڈر پر دھرنے پر بیٹھے کسانوں کے خلاف وبائی قانون کے تحت کیس بھی درج کیا گیا ہے۔
زرعی قانون سے متعلق بیداری
اسی کے ساتھ مرکزی سرکار نے نئے زرعی قانون سے متعلق بیداری پیدا کرنے کے لیے جمعہ سے ملک بھر میں 700 چوپال اور پریس کانفرنس منعقد کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کے تحت مختلف اضلاع میں میڈیا سے بات چیت کے علاوہ 100 سے زیادہ مقامات پر کسان کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا۔
تحریک میں مزید شدت کا اعلان
وہیں، کسان لیڈروں نے سرکار کی سبھی تجویزوں کو خارج کرتے ہوئے نئے زرعی قوانین کو یکسر رد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کسانوں کے لیڈر بوٹا سنگھ نے کہا کہ سرکار ان قوانین کو واپس لے لے تو کسان اپنے گھر چلے جائیں گے۔ اسی کے ساتھ کسانوں نے اپنی تحریک میں مزید شدت پیدا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کسانوں نے، ٹرینیں روکنے، مزید ہائی وے کو جام کرنے اور 14 دسمبر سے ملک گیر سطح پر سبھی اضلاع میں احتجاجی مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
مزید پڑھیں:
سنگھو بارڈر پر بیٹھے کسانوں کے خلاف مقدمہ درج
اس سے قبل 10دسمبر کو کسانوں نے سرکار کی 19صفحات پر مشتمل تجاویز کو خارج کر دیا۔ انڈین کسان یونین کے لیڈر راکیش ٹکیت نے کہا کہ مرکز نے ہمارے 15 میں 12مطالبات کو مان لیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہ قانون صحیح نہیں ہے، لہٰذا اس قانون کو رد کر دینا چاہیے۔