ETV Bharat / bharat

Samuel Ahmed Passes Away مشہور افسانہ و ناول نگار شموئل احمد کا انتقال

مشہور افسانہ و ناول نگار شموئل احمد 77 برس عمر میں انتقال کرگئے،انہیں بہترین فکشن نگاری کے لیے عالمی فروغ اردو ادب دوحہ، قطر 2012کے انعام سے نوازہ جا چکا ہے۔Samuel Ahmed Dies At 77

author img

By

Published : Dec 25, 2022, 7:38 PM IST

Etv Bharat
Etv Bharat

پٹنہ: ساتویں دہائی کے مشہور افسانہ و ناول نگار شموئل احمد کا نوئیڈا میں بیٹی کی رہائش گاہ پر انتقال ہوگیا وہ ایک عرصے سے بیمار تھے اور لیور کینسر کی بیماری میں مبتلا تھے ان کی عمر تقریباً 77 برس تھی پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں ان کی تدفین نوئیڈا میں ہی کردی گئی۔ Fiction and Novelist Samuel Ahmed Passes Away

ذرائع کے مطابق اپنے انداز کے نرالے اور بے باک افسانہ نگار شموئل احمد نے آج صبح نوئیڈا میں آخری سانس لی۔ بڑا بیٹا پونا میں پروفیسر ہے جبکہ چھوٹا بیٹا پائلٹ ہے ۔ بیٹی نوئیڈا میں ہی اپنا این جی او وغیرہ چلاتی ہے۔ شموئل احمد 4 مئی 1945 کو بھاگلپور میں پیدا ہوئے تھے۔سول انجینیرنگ کی ڈگری حاصل کی اور حکومت بہار کے شعبہ پبلک ہیلتھ انجینیرنگ میں چیف انجینئیر کے عہدے سے ریٹایر ہوے. انہیں بہترین فکشن نگاری کے لیے عالمی فروغ اردو ادب دوحہ، قطر 2012کے انعام سے نوازہ گیا ہے.

شموئل پٹنہ کے پاٹلی پترا میں مقیم ہوگئے۔ انہیں بچپن ہی سے ادبی ذوق رہا ہے چھٹی ساتویں جماعت ہی سے طبع آزمائی کرنے لگے لیکن باضابطہ اشاعت کا سلسلہ1970ء کے آس پاس شروع ہوا جو چار پانچ سال تک چلتا رہا اس کے بعد چار پانچ سال تک خاموشی رہی، اس کے بعد پھر لکھنا شروع کیا جو ہنوز جاری تھا۔ اب تک ان کی تیس کہانیاں شائع ہوچکی ہیں۔ ایک افسانوی مجموعہ بگولے،1988 ء میں شائع ہوا۔ وہ دو جنس کی نفسیات کو اپنی کہانیوں کا موضوع بناتے ہیں ساتھ ہی ساتھ استحصال اور جبروتشد دکی عکاسی کرتے ہیں کبھی کبھی ذات کی تلاش میں بھی گم ہوجاتے ہیں وہ آج کے نظام ہی کو استحصال اور کرپشن کی وجہ بتاتے ہیں چونکہ ان کا تعلق صحافت سے بھی ہے اس لئے زبان وبیان پر بہت حد تک گرفت مضبوط ہے،1980 کے بعد اردو افسانے نے پھر افسانوی رنگ اختیار کیا ہے اس سے وہ بہت خوش تھے حالانکہ وہ خود بھی کچھ کہانیوں میں تجربے کے شکار ہوگئے ہیں۔ اردو کے علاوہ ہندی میں بھی کہانیاں لکھتے تھے وہ وقت اور حالات سے سمجھوتہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے

سنگھار دان جیسی کہانی کے خالق شموئل احمد اپنے منفرد اسلوب اور بے باک لہجے کے لئے جانے جاتے تھے۔ ان کے ہر افسانے میں ایک نیاتجربہ اور نئی حسسیت کار فرما نظر آتی ہے۔شموئل صرف جنس کی نفسیات پر ہی گہری نظر نہیں رکھتے بلکہ عصری اور سیاسی مسایل کو تمام پختگی سے پیش کرنے کا فن جانتے ہیں.ان کا دلکش اسلوب فنی رویہ اور تخلیقی مزاج انہیں اپنے ہم عصروں سے الگ کرتا ہے. ' عنکبوت ' اونٹ ' ظہار ' اور سنگھار دان ' جیسی کہانیاں شموئل کے قلم سے ہی نکل سکتی تھیں.شموئل احمد کو علم نجوم سے گہرا شغف ہے. انہوں نے علم نجوم کی اصطلاحوں کا بہت تخلیقی اظہار 'مصری کی ڈلی ' چھگمانس ' اور القمبوئس کی گردن ' جیسی کہانیوں میں کیا ہے.شمویل ہندی زبان میں بھی یکساں قدرت سے لکھتے ہیں۔

شموئل احمد کے افسانوں کا ترجمہ انگریزی کی علاوہ ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی ہو چکا ہے. پنجابی میں ان کے نمائندہ افسانوں کا انخاب ' مرگ ترشنا ' شائع ہوا .شموئل ٹیلی اسکرپٹ بھی لکھتے ہیں. ان کی کہانی ' آنگن کا پیڑ ، کاغذی پیراہن ا?ور مرگ ترشنا پر ٹیلی فلمیں بن چکی ہیں جس کی اسکرپٹ شمویل نے ہی لکھی. . ان کا ناول 'ندی ' پینگوئن اردو نے شایع کیا ہے.حال میں ہی اس ناول کا انگریزی ترجمہ River جرمنی سے شایع ہوا ہے.ان کی کہانی 'سنگاردان' کا انگریزی ترجمہ ہارپر کولنز کے ذریعہ شائع ہوا، اور ابھے کمار کے ذریعہ ترمیم شدہ بہاری ادب کی کتاب میں شامل ہے۔ جرمنی سے ہی انگریزی میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ' Dressing Table Theکے عنوان سے شایع ہوا ہے جس کی یوروپ میں بہت دھوم ہے.شموئل احمد کا دوسرا ناول ' مھاماری ' اردو کے اھم سیاسی ناولوں میں شمار ہوتا ہے. شمویل صف اول کے مترجم بھی ہیں. ساہتیہ اکاڈمی کے اصرار پر گجراتی ناول کنواں کا ہندی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے.انکے افسانوی مجموعے؛میں۔ 1. بگولے 2سنگھار دان، 3 القمبوس کی گردن. 4 عنکبوت ناول؛مھاماری۔5. ندی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: Ashiq Kashmiri Passes Away معمر صحافی عاشق کشمیری کا انتقال

یو این آئی

پٹنہ: ساتویں دہائی کے مشہور افسانہ و ناول نگار شموئل احمد کا نوئیڈا میں بیٹی کی رہائش گاہ پر انتقال ہوگیا وہ ایک عرصے سے بیمار تھے اور لیور کینسر کی بیماری میں مبتلا تھے ان کی عمر تقریباً 77 برس تھی پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں ان کی تدفین نوئیڈا میں ہی کردی گئی۔ Fiction and Novelist Samuel Ahmed Passes Away

ذرائع کے مطابق اپنے انداز کے نرالے اور بے باک افسانہ نگار شموئل احمد نے آج صبح نوئیڈا میں آخری سانس لی۔ بڑا بیٹا پونا میں پروفیسر ہے جبکہ چھوٹا بیٹا پائلٹ ہے ۔ بیٹی نوئیڈا میں ہی اپنا این جی او وغیرہ چلاتی ہے۔ شموئل احمد 4 مئی 1945 کو بھاگلپور میں پیدا ہوئے تھے۔سول انجینیرنگ کی ڈگری حاصل کی اور حکومت بہار کے شعبہ پبلک ہیلتھ انجینیرنگ میں چیف انجینئیر کے عہدے سے ریٹایر ہوے. انہیں بہترین فکشن نگاری کے لیے عالمی فروغ اردو ادب دوحہ، قطر 2012کے انعام سے نوازہ گیا ہے.

شموئل پٹنہ کے پاٹلی پترا میں مقیم ہوگئے۔ انہیں بچپن ہی سے ادبی ذوق رہا ہے چھٹی ساتویں جماعت ہی سے طبع آزمائی کرنے لگے لیکن باضابطہ اشاعت کا سلسلہ1970ء کے آس پاس شروع ہوا جو چار پانچ سال تک چلتا رہا اس کے بعد چار پانچ سال تک خاموشی رہی، اس کے بعد پھر لکھنا شروع کیا جو ہنوز جاری تھا۔ اب تک ان کی تیس کہانیاں شائع ہوچکی ہیں۔ ایک افسانوی مجموعہ بگولے،1988 ء میں شائع ہوا۔ وہ دو جنس کی نفسیات کو اپنی کہانیوں کا موضوع بناتے ہیں ساتھ ہی ساتھ استحصال اور جبروتشد دکی عکاسی کرتے ہیں کبھی کبھی ذات کی تلاش میں بھی گم ہوجاتے ہیں وہ آج کے نظام ہی کو استحصال اور کرپشن کی وجہ بتاتے ہیں چونکہ ان کا تعلق صحافت سے بھی ہے اس لئے زبان وبیان پر بہت حد تک گرفت مضبوط ہے،1980 کے بعد اردو افسانے نے پھر افسانوی رنگ اختیار کیا ہے اس سے وہ بہت خوش تھے حالانکہ وہ خود بھی کچھ کہانیوں میں تجربے کے شکار ہوگئے ہیں۔ اردو کے علاوہ ہندی میں بھی کہانیاں لکھتے تھے وہ وقت اور حالات سے سمجھوتہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے

سنگھار دان جیسی کہانی کے خالق شموئل احمد اپنے منفرد اسلوب اور بے باک لہجے کے لئے جانے جاتے تھے۔ ان کے ہر افسانے میں ایک نیاتجربہ اور نئی حسسیت کار فرما نظر آتی ہے۔شموئل صرف جنس کی نفسیات پر ہی گہری نظر نہیں رکھتے بلکہ عصری اور سیاسی مسایل کو تمام پختگی سے پیش کرنے کا فن جانتے ہیں.ان کا دلکش اسلوب فنی رویہ اور تخلیقی مزاج انہیں اپنے ہم عصروں سے الگ کرتا ہے. ' عنکبوت ' اونٹ ' ظہار ' اور سنگھار دان ' جیسی کہانیاں شموئل کے قلم سے ہی نکل سکتی تھیں.شموئل احمد کو علم نجوم سے گہرا شغف ہے. انہوں نے علم نجوم کی اصطلاحوں کا بہت تخلیقی اظہار 'مصری کی ڈلی ' چھگمانس ' اور القمبوئس کی گردن ' جیسی کہانیوں میں کیا ہے.شمویل ہندی زبان میں بھی یکساں قدرت سے لکھتے ہیں۔

شموئل احمد کے افسانوں کا ترجمہ انگریزی کی علاوہ ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی ہو چکا ہے. پنجابی میں ان کے نمائندہ افسانوں کا انخاب ' مرگ ترشنا ' شائع ہوا .شموئل ٹیلی اسکرپٹ بھی لکھتے ہیں. ان کی کہانی ' آنگن کا پیڑ ، کاغذی پیراہن ا?ور مرگ ترشنا پر ٹیلی فلمیں بن چکی ہیں جس کی اسکرپٹ شمویل نے ہی لکھی. . ان کا ناول 'ندی ' پینگوئن اردو نے شایع کیا ہے.حال میں ہی اس ناول کا انگریزی ترجمہ River جرمنی سے شایع ہوا ہے.ان کی کہانی 'سنگاردان' کا انگریزی ترجمہ ہارپر کولنز کے ذریعہ شائع ہوا، اور ابھے کمار کے ذریعہ ترمیم شدہ بہاری ادب کی کتاب میں شامل ہے۔ جرمنی سے ہی انگریزی میں ان کے افسانوں کا مجموعہ ' Dressing Table Theکے عنوان سے شایع ہوا ہے جس کی یوروپ میں بہت دھوم ہے.شموئل احمد کا دوسرا ناول ' مھاماری ' اردو کے اھم سیاسی ناولوں میں شمار ہوتا ہے. شمویل صف اول کے مترجم بھی ہیں. ساہتیہ اکاڈمی کے اصرار پر گجراتی ناول کنواں کا ہندی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے.انکے افسانوی مجموعے؛میں۔ 1. بگولے 2سنگھار دان، 3 القمبوس کی گردن. 4 عنکبوت ناول؛مھاماری۔5. ندی شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: Ashiq Kashmiri Passes Away معمر صحافی عاشق کشمیری کا انتقال

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.