ETV Bharat / bharat

موسم سرما میں گلیشیئر نہیں ٹوٹتا ہے، سائنس دانوں نے تشویش کا اظہار کیا - گلیشیئر کیا ہوتا ہے

واڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ہمالیہ جیولوجی کے ڈائریکٹر کلاچند سائی نے جوشی مٹھ میں گلیشیئر ٹوٹنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک کی گئی تحقیق میں اس علاقے میں جھیل کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے، ایسی صورتحال میں یہ تباہی کیسے واقع ہوئی ہے؟ اس کی حقیقت جاننے کے لیے سائنس دانوں کی دو ٹیمیں پیر کو روانہ ہوں گی۔

kaliachand sai director of wadia institute
واڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ہمالیہ جیولوجی کے ڈائریکٹر کلاچند سائی
author img

By

Published : Feb 7, 2021, 9:54 PM IST

ریاست اتراکھنڈ کے چمولی ضلع میں جوشی مٹھ میں آنے والی قدرتی تباہی کی صورتحال ابھی واضح نہیں ہوسکی ہے، لیکن سائنس دانوں کے ابتدائی مطالعے کے مطابق یہ تباہی گلیشیئر کے ٹکڑے کے ٹوٹنے کے سبب ہونے کا اندیشہ ہے، تاہم جوشی مٹھ میں پیش آنے والی تباہی 2013 میں کیدار گھاٹی میں آنے والی تباہی سے بالکل مختلف ہے۔

واڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ہمالیہ جیولوجی کے ڈائریکٹر کلاچند سائی

سائنس دانوں کے مطابق جوشی مٹھ میں تباہی کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں، اس علاقے میں پہلے کی گئی تحقیقات کے مطابق ایسا کوئی گلیشیئر نہیں ہے جو ٹوٹ سکے اور نہ ہی ایسی کوئی جھیل موجود ہو۔

ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کے دوران واڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ہمالیہ جیولوجی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر کلاچند سائی نے بتایا کہ اب تک جو معلومات موصول ہوئی ہیں، اس کے مطابق اس علاقے میں جھیل کی کوئی معلومات دستیاب نہیں ہے۔

اس کے ساتھ اتراکھنڈ کے علاقے میں سارس ٹائپ گلیشیئر کا بھی پتہ نہیں چل سکا ہے لہذا جوشی مٹھ میں تباہی کی وجہ گلیشیئر کے ٹوٹنے سے نہیں جوڑی جاسکتی ہے۔ اس خطے میں تباہی کی کیا وجہ ہے؟ اس حقیقت سے واقفیت کے لیے پیر کے روز سائنس دانوں کی 2 ٹیمیں بھیجی جارہی ہیں جس کے بعد ہی درست معلومات دستیاب ہوں گی۔

ڈائریکٹر نے کہا کہ موجودہ صورتحال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ گلیشیئر کے ٹکڑے کے ٹوٹنے کے سبب ہی تباہی آئی ہے لیکن سائنس دانوں کے مطالعے کے بعد ہی اس تباہی کے آنے کی اصل وجہ معلوم ہوگی۔

انھوں نے بتایا کہ سردی کے موسم میں گلیشیئر پھٹنے کا واقعہ نہیں پیش آتا ہے، بلکہ اس طرح کے واقعات عام طور پر گرمیوں کے موسم میں یا پھر بادل پھٹنے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

ڈائریکٹر ڈاکٹر کلا چند سائی نے کہا کہ ہر قسم کے گلیشیئر نہیں ٹوٹتے ہیں، بلکہ ایک خاص قسم کا گلیشیئر یعنی سارس گلیشیئر کے ٹوٹنے کا زیادہ اندیشہ رہتا ہے لیکن اب تک جو مطالعہ ہوا ہے اس تحقیق کے مطابق اتراکھنڈ کے اس خطے میں ایسا کوئی گلیشیئر بھی نہیں ہے کیونکہ 2013 میں پیش آنے والی تباہی کی وجہ کیدار گھاٹی میں بادل پھٹنے کی وجہ سے چوراباری جھیل کا باندھ ٹوٹ گیا تھا۔

wadia-institute
واڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ہمالیہ جیولوجی

انہوں نے بتایا کہ ہمالیہ کے بلند علاقوں میں گلیشیئر پائے جاتے ہیں، جہاں درجہ حرارت منفی ڈگری سیلسیس ہوتا ہے، اور اگر گلیشیئر میں بنی کسی جھیل سے پانی اترتا ہے تو وہ بہت تیزی سے آتا ہے جس کی وجہ سے پانی کا بہاو کافی تیز ہوتا ہے اور پانی کے سامنے آنے والی ہر چیز بہہ جائے گی، انہوں نے بتایا کہ اگر رات کو ایسے واقعات پیش آتے ہیں تو اس سے بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ سال 2013 میں کیدارگھاٹی میں بھی رات کو تباہی آئی تھی، جس کی وجہ سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر جانے کا موقع نہیں مل سکا تھا۔ لہذا اگر بلند ہمالیائی علاقوں سے کوئی آفت آتی ہے تو اس ہمالیائی خطے میں یا پھر اس سے نیچے رہنے والے لوگوں پر بہت اثر پڑتا ہے۔

گلیشیئر کیا ہوتا ہے؟

در حقیقت گلیشیئر پہاڑوں کی اونچی چوٹیوں پر برسوں تک کافی مقدار میں برف کے ایک جگہ پر منجمد رہنے سے بنتا ہے، 99 فیصد گلیشیئر آئس شیٹ کی شکل میں ہوتے ہیں، جن کو براعظم گلیشیئر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ زیادہ تر قطبی خطوں یا بہت اونچائی والے پہاڑی علاقوں میں ہوتا ہے۔ ہمالیہ کے علاقوں میں بھی اسی طرح کے گلیشیر پائے جاتے ہیں۔

گلیشیئر کیوں ٹوٹتا ہے؟

گلیشیئر ٹوٹنے کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن سب سے اہم وجہ مقناطیسی قوت ہے اور متعدد بار گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بھی گلیشیئر برف بھی پگھل جاتی ہے اور بڑے بڑے برف کے ٹکڑوں میں ٹوٹ جاتی ہے، اس عمل کو گلیشیئر پھٹنا یا ٹوٹنا کہا جاتا ہے، اسے کالونگ یا گلیشیئر پھٹ جانا بھی کہتے ہیں۔

گلیشیئر ٹوٹنے سے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟

گلیشیئر کے ٹوٹنے سے شدید سیلاب کا سبب بن سکتا ہے، گلیشیئر ٹوٹنے کے بعداس کے اندر کا پانی اپنا راستہ تلاش کرتا ہے اور جب یہ گلیشیئر کے درمیان سے بہتا ہے تو برف پگھلنے کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس سے پانی کا راستہ بھی بڑا ہوتا جاتا ہے اور پانی کی مقدار بھی سیلاب کی شکل اختیار کرتا جاتا ہے، اس کی وجہ سے ندیوں میں پانی کی سطح اچانک بہت تیزی سے بڑھ جاتی ہے، ندیوں کے بہاؤ میں بھی تیزی آتی ہے جس سے اس کے آس پاس کے علاقوں میں تباہی آتی ہے۔ موجودہ واقعہ کی وجہ سے اتراکھنڈ کے دیو پریاگ، کرنپریاگ ، شری نگر ، رشیکیش کو سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہونے کا خدشہ ہے۔

ریاست اتراکھنڈ کے چمولی ضلع میں جوشی مٹھ میں آنے والی قدرتی تباہی کی صورتحال ابھی واضح نہیں ہوسکی ہے، لیکن سائنس دانوں کے ابتدائی مطالعے کے مطابق یہ تباہی گلیشیئر کے ٹکڑے کے ٹوٹنے کے سبب ہونے کا اندیشہ ہے، تاہم جوشی مٹھ میں پیش آنے والی تباہی 2013 میں کیدار گھاٹی میں آنے والی تباہی سے بالکل مختلف ہے۔

واڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ہمالیہ جیولوجی کے ڈائریکٹر کلاچند سائی

سائنس دانوں کے مطابق جوشی مٹھ میں تباہی کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں، اس علاقے میں پہلے کی گئی تحقیقات کے مطابق ایسا کوئی گلیشیئر نہیں ہے جو ٹوٹ سکے اور نہ ہی ایسی کوئی جھیل موجود ہو۔

ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو کے دوران واڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ہمالیہ جیولوجی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر کلاچند سائی نے بتایا کہ اب تک جو معلومات موصول ہوئی ہیں، اس کے مطابق اس علاقے میں جھیل کی کوئی معلومات دستیاب نہیں ہے۔

اس کے ساتھ اتراکھنڈ کے علاقے میں سارس ٹائپ گلیشیئر کا بھی پتہ نہیں چل سکا ہے لہذا جوشی مٹھ میں تباہی کی وجہ گلیشیئر کے ٹوٹنے سے نہیں جوڑی جاسکتی ہے۔ اس خطے میں تباہی کی کیا وجہ ہے؟ اس حقیقت سے واقفیت کے لیے پیر کے روز سائنس دانوں کی 2 ٹیمیں بھیجی جارہی ہیں جس کے بعد ہی درست معلومات دستیاب ہوں گی۔

ڈائریکٹر نے کہا کہ موجودہ صورتحال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ گلیشیئر کے ٹکڑے کے ٹوٹنے کے سبب ہی تباہی آئی ہے لیکن سائنس دانوں کے مطالعے کے بعد ہی اس تباہی کے آنے کی اصل وجہ معلوم ہوگی۔

انھوں نے بتایا کہ سردی کے موسم میں گلیشیئر پھٹنے کا واقعہ نہیں پیش آتا ہے، بلکہ اس طرح کے واقعات عام طور پر گرمیوں کے موسم میں یا پھر بادل پھٹنے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

ڈائریکٹر ڈاکٹر کلا چند سائی نے کہا کہ ہر قسم کے گلیشیئر نہیں ٹوٹتے ہیں، بلکہ ایک خاص قسم کا گلیشیئر یعنی سارس گلیشیئر کے ٹوٹنے کا زیادہ اندیشہ رہتا ہے لیکن اب تک جو مطالعہ ہوا ہے اس تحقیق کے مطابق اتراکھنڈ کے اس خطے میں ایسا کوئی گلیشیئر بھی نہیں ہے کیونکہ 2013 میں پیش آنے والی تباہی کی وجہ کیدار گھاٹی میں بادل پھٹنے کی وجہ سے چوراباری جھیل کا باندھ ٹوٹ گیا تھا۔

wadia-institute
واڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ہمالیہ جیولوجی

انہوں نے بتایا کہ ہمالیہ کے بلند علاقوں میں گلیشیئر پائے جاتے ہیں، جہاں درجہ حرارت منفی ڈگری سیلسیس ہوتا ہے، اور اگر گلیشیئر میں بنی کسی جھیل سے پانی اترتا ہے تو وہ بہت تیزی سے آتا ہے جس کی وجہ سے پانی کا بہاو کافی تیز ہوتا ہے اور پانی کے سامنے آنے والی ہر چیز بہہ جائے گی، انہوں نے بتایا کہ اگر رات کو ایسے واقعات پیش آتے ہیں تو اس سے بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ سال 2013 میں کیدارگھاٹی میں بھی رات کو تباہی آئی تھی، جس کی وجہ سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر جانے کا موقع نہیں مل سکا تھا۔ لہذا اگر بلند ہمالیائی علاقوں سے کوئی آفت آتی ہے تو اس ہمالیائی خطے میں یا پھر اس سے نیچے رہنے والے لوگوں پر بہت اثر پڑتا ہے۔

گلیشیئر کیا ہوتا ہے؟

در حقیقت گلیشیئر پہاڑوں کی اونچی چوٹیوں پر برسوں تک کافی مقدار میں برف کے ایک جگہ پر منجمد رہنے سے بنتا ہے، 99 فیصد گلیشیئر آئس شیٹ کی شکل میں ہوتے ہیں، جن کو براعظم گلیشیئر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ زیادہ تر قطبی خطوں یا بہت اونچائی والے پہاڑی علاقوں میں ہوتا ہے۔ ہمالیہ کے علاقوں میں بھی اسی طرح کے گلیشیر پائے جاتے ہیں۔

گلیشیئر کیوں ٹوٹتا ہے؟

گلیشیئر ٹوٹنے کی بہت ساری وجوہات ہیں لیکن سب سے اہم وجہ مقناطیسی قوت ہے اور متعدد بار گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بھی گلیشیئر برف بھی پگھل جاتی ہے اور بڑے بڑے برف کے ٹکڑوں میں ٹوٹ جاتی ہے، اس عمل کو گلیشیئر پھٹنا یا ٹوٹنا کہا جاتا ہے، اسے کالونگ یا گلیشیئر پھٹ جانا بھی کہتے ہیں۔

گلیشیئر ٹوٹنے سے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟

گلیشیئر کے ٹوٹنے سے شدید سیلاب کا سبب بن سکتا ہے، گلیشیئر ٹوٹنے کے بعداس کے اندر کا پانی اپنا راستہ تلاش کرتا ہے اور جب یہ گلیشیئر کے درمیان سے بہتا ہے تو برف پگھلنے کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس سے پانی کا راستہ بھی بڑا ہوتا جاتا ہے اور پانی کی مقدار بھی سیلاب کی شکل اختیار کرتا جاتا ہے، اس کی وجہ سے ندیوں میں پانی کی سطح اچانک بہت تیزی سے بڑھ جاتی ہے، ندیوں کے بہاؤ میں بھی تیزی آتی ہے جس سے اس کے آس پاس کے علاقوں میں تباہی آتی ہے۔ موجودہ واقعہ کی وجہ سے اتراکھنڈ کے دیو پریاگ، کرنپریاگ ، شری نگر ، رشیکیش کو سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہونے کا خدشہ ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.