الیکشن کمیشن نے آسام کے آٹھ اخباروں کو بی جے پی کے اشتہار شائع کرنے کے سلسلے میں نوٹس جاری کیا ہے۔ ان اخباروں میں دعوی کیا گیا تھا کہ بی جے پی ان تمام 47 نشستوں پر کامیابی حاصل کرے گی جہاں ہفتہ کو پہلے مرحلے میں ووٹنگ کی گئی تھی۔ الیکشن کمیشن کے افسران نے اس بات کی جانکاری دی۔
افسران نے بتایا کہ کانگریس کی شکایت کے بعد اخباروں کو نوٹس صادر کیا گیا ہے۔ اس شکایت میں کانگریس نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ اشتہار الیکشن کمیشن کی ہدایت، انتخابی ضابطہ اخلاق اور عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
آسام کے چیف الیکٹورل آفسر تنن کھڈے نے پیر کو شام سات بجے تک اخبارات کو رپورٹ بھیج کر اس معاملے میں وضاحت کرنے کو کہا تھا۔افسران نے بتایا کہ جس اخبارات نے اپنی رپورٹ پیش کر دی ہے، جو الیکشن کمیشن آف انڈیا کو ارسال کردی گئی ہے۔
اس سے قبل کانگریس کے آسام یونٹ نے آسام کے وزیراعلی سربانند سونووال، بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا، ریاستی بی جے پی کے سربراہ رنجیت کمار داس اور آٹھ سر فہرست اخباروں کے خلاف ایک شکایت دی تھی، جس میں کانگریس نے کہا تھا کہ 'خبروں کی شکل کے طور پر اشہتار چھاپے' گئے تھے اور ساتھ میں دعوی کیا گیا تھا کہ بی جے پی ان تمام نشستوں پر کامیابی حاصل کرے گی جس پر 27 مارچ کو ووٹ دیے گئے تھے۔
کانگریس نے یہ شکایت اتوار کی شب کو دسپور تھانہ میں درج کرایا تھا۔آسام ریاستی کانگریس کمیٹی (اے پی سی سی ) کے قانونی یونٹ کے صدر نرن بورا نے کہا کہ ' بی جے پی رہنماؤں کے ذریعہ انتخابی ضابطہ اخلاق، عوام نمائندگی ایکٹ 1951 کی دفعات اور الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ رہنما خطوط کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی قائدین کو احساس ہورہا ہے کہ وہ انتخابات ہار رہے ہیں ، لہذا وہ رائے دہندگان کو متاثر کرنے کے لئے غیر قانونی اور غیر آئینی طریقے اختیار کر رہے ہیں۔
بورا نے کہا کہ اشتہارات کو اخبارات کے صفحہ اول پر طباعت کرنے کا مقصد رائے دہندگان کے ذہنوں کو متاثر کرنے کی نیت سے کیا گیا تھا اور یہ بدنیتی پر مبنی اشتہار عوام نمائندگی ایکٹ 1951 کی دفعہ 126 اے کی واضح خلاف ورزی ہے جس میں دو سال قید اور جرمانے کی سزا دی گئی ہے۔
ریاستی کانگریس نے اتوار کے روز اخباروں کی اشاعت کے خلاف آسام کے چیف انتخابی افسر اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے الیکشن کمیشن کو شکایت دی اور بی جے پی اور اخبارات کے خلاف فوری کارروائی کی اپیل کی۔