ریاست اترپردیش کے ضلع مظفر نگر کے رہائشی شاعر مولانا خالد زاہد ان شعراء میں شمار کیے جاتے ہیں جن کی ادبی خدمات سے متاثر ہو کر دیگر ریاستوں کے ساتھ ساتھ حکومت ہند نے بھی اعزاز سے نوازا ہے۔
انہوں نے شاعری میں قدم رکھتے ہی عوام اور خواص دونوں کو یکساں طور پر متاثر کیا اس دوران انہوں نے کہا کہ میں شاعر بنا نہیں بلکہ شاعر پیدا ہوا ہوں مجھے شعر کہنا حضرت حفیظ میرٹھی کے قدموں میں بیٹھ کر آیا۔
مولانا خالد زاہد نے بھارت کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی بھارت کی نمائندگی کی جبکہ انہیں صلاحیتوں کی بنیاد پر کئی سرکاری اور غیر سرکاری ادبی تنظیموں کے بڑے عہدوں میں بھی سرفراز کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ایک شاعر سیریز: اردو زبان کی شیدائی، شاعرہ وبھا تیواری
انہوں نے جتنے کم وقت میں شہرت کی بلندیوں تک پہنچے وہ کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے انہوں نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ گفتگو میں چند اشعار پیش کئے،"
میری بات اور ہے کہ زندہ ہیں ابھی میرا ضمیر
ہاں تجھے حق ہے چاہے جہاں وہاں کیڑے نکال
دفن ہیں میری اسی سینے میں سب راز تیرے
اپنا خنجر میرے سینے سے ذرا دھیرے سے نکال
جن کی خوشی کی خاطر میں نے اپنا سب کچھ قربان کیا
ان بیٹوں کا یہ کہنا ہے کے ہم پر کیا احسان کیا
جنہیں سمجھنے میں عمر گزار دی زاہد
سمجھ میں آئے تو ایک دم اتر گئے دل سے