مرکزی حکومت اور کسان تنظیموں کے درمیان آٹھویں دور کا مذاکرہ جمعہ کو بے نتیجہ ختم ہوگیا۔ کسان تنظیمیں بارش اور شدید سردی کے درمیان گذشتہ 43 روز سے دہلی کی سرحدوں پر زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ اب تک بات چیت کے سات دور ہوچکے ہیں، اس کے باوجود کوئی راستہ نظر نہیں آیا، لیکن آٹھویں دور کی میٹنگ میں حکومت اور کسانوں کو اچھی امید تھی یہ میٹنگ بھی بے نتیجہ ختم ہوگئی ۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ اب اس سلسلے میں نویں دور کی میٹنگ 15 جنوری کو ہوگی۔
ایک جانب کسانوں کا کہنا ہے کہ زرعی قوانین کو واپس لئے بغیر کام نہیں ہوسکتے ہیں۔ وہیں مرکزی حکومت نے بھی واضح کردیا ہے کہ وہ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔
مرکز اور مظاہرہ کرنے والے کسانوں کے درمیان ہونے والی آٹھویں دور کی بات چیت کے ایک دن قبل مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے کہا کہ حکومت تین نئے زرعی قوانین کو واپس لینے کے علاوہ کسی بھی تجویز پر غور کرنے کے لئے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ابھی نہیں کہہ سکتے کہ آٹھ جنوری کو وگیان بھون میں دوپہر دو بجے مظاہرہ کر رہے 40 کسان تنظیم کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات میں کیا نتیجہ نکلے گا۔
مرکزحکومت اور 40 کسان تنظیموں کے مابین اب تک سات دور کی بات چیت ہوچکی ہے۔ کسانوں کی تنظیموں کو 30 دسمبر کو میٹنگ میں کچھ کامیابی ملی تھی، جب حکومت بجلی کی سبسڈی اور پرالی کو جلانے سے متعلق دو مطالبات پر راضی ہوگئی تھی۔
وزیر زراعت نے جمعرات کو کہا ہے کہ وہ ان قوانین کو واپس لینے کے مطالبے کے علاوہ کسی بھی تجویز پر غور کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ریاستوں کو نئے مرکزی قانون کو نافذ کرنے کی چھوٹ کے متعلق انہوں نے واضح کیا کہ ایسی کوئی چھوٹ ریاست کو نہیں دی گئی ہے۔
وزیر مملکت برائے زراعت کیلاش چودھری نے کہا کہ نئے زرعی قوانین کسانوں کو استثنیٰ دیتے ہیں اور حکومت جلد سے جلد موجودہ تعطل کے خاتمے کی امید کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو اقدامات کئے گئے ہیں وہ صرف ابتداء ہے اور مزید اصلاحات کی جانی ہیں۔ اس کے بعد کیٹناشک بل اور بیجوں کا بل ہوگا۔