ETV Bharat / bharat

بے قابو وبا سے نمٹنے کے لیے ایک موثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت

author img

By

Published : May 5, 2021, 10:36 AM IST

Updated : May 5, 2021, 10:44 AM IST

دہلی ہائی کورٹ نے حال ہی میں دلی میں میڈیکل آکسیجن کے بڑھتے ہوئے بحران سے متعلق مسئلے کی شنوائی کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسے ایک لہر پکارتے ہیں لیکن اصل میں یہ ایک سونامی ہے۔ اور اس بے قابو وبا سے نمٹنے کے لئے ایک مؤثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔

کووڈ سونامی سے نمٹنے کے لئے مؤثر حکمت عملی کی ضرورت
کووڈ سونامی سے نمٹنے کے لئے مؤثر حکمت عملی کی ضرورت

دنیا بھر کی طرح بھارت میں بھی کورونا نے دھماکو صورت حال اختیار کرلی ہے۔ جس کے سبب روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں موتیں ہورہی ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ نے حال ہی میں دلی میں میڈیکل آکسیجن کے بڑھتے ہوئے بحران سے متعلق مسئلے کی شنوائی کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسے ایک لہر پکارتے ہیں لیکن اصل میں یہ ایک سونامی ہے۔ گزشتہ سال کووِڈ کا پہلا کیس جنوری میں منظر عام پر آیا تھا اور وبا کو 25 لاکھ متاثرین سے تجاوز کرنے میں چھ ماہ کا وقت لگا تھا۔

دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ گزشتہ سال کے مقابلہ اس سال کووڈ نے تباہی مچائی ہے، اب جسے دوسری لہر قرار دیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے ایک ہفتے میں ہی متاثرین کی تعداد 26 لاکھ سے زیادہ ہوگئی ہے۔ اس عرصے میں 23,800 اموات کا اندراج ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف مارچ کے ماہ میں کووِڈ کی وجہ سے 5,417 اموات ہوئی ہیں۔ جبکہ سرکاری اعداد و شمار یہ بھی بتارہے ہیں کہ اپریل کے ماہ میں اس کی وجہ سے 45,000 انسانی زندگیاں تلف ہوگئی ہیں۔

واضح رہے کہ بھارت میں اب تک متاثرین کی مجموعی تعداد 2 کروڑ تجاوز ہوگئی ہے جبکہ فی الوقت یہاں 34 لاکھ افراد کووِڈ متاثر ہیں۔ یہ سارے اعداد و شمار ایک بڑے سماجی بحران کا عندیہ دے رہے ہیں۔ کئی بین الاقوامی ایجنسیوں نے متنبہ کیا ہے کہ اس ماہ بھارت میں روزانہ متاثرین کی تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کرے گی اور روزانہ 5 ہزار اموات ہوں گی۔ اس انتباہ کے بعد ایک بار پھر ملک گیر لاک ڈاؤن لاگو کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ متاثرین میں سے 75 فیصد کا تعلق مہاراشٹرا، اُتر پردیش، کرناٹک، کیرلا، تامل ناڈو، آندھرا پردیش، مغربی بنگال، راجستھان، چھتیس گڑھ اور دلی سے ہے۔ یہ صورتِ حال ان ریاستوں کے 150 اضلاع، جن میں سب سے زیادہ کیس سامنے آئے ہیں، میں سخت ترین لاک ڈاؤن کے نفاذ کا تقاضا کرتی ہے۔

یاد رہے کہ جہاں ہریانہ اور اُڑیسہ نے حال ہی میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔ وہیں کئی دیگر ریاستوں نے کرفیو نافذ کردیا ہے اور سخت اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وبا قابو ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ کئی ممالک نے بھارت سے مسافروں کی آمد پر روک لگادی ہے اور اس طرح سے ملک کو باہر سے بند کردیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت کو ریاستوں کے ساتھ صلاح و مشورے کے بعد لاک ڈاؤن لاگو کرنا چاہیے تاکہ بیماری کی ترسیل کی زنجیر ٹوٹ جائے۔

عدالتِ عظمیٰ نے بھی حال ہی میں کہا ہے کہ حکومت کو لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لئے لاک ڈاؤن لاگو کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ عدالت نے کہا ہے کہ اسے احساس ہے کہ لاک ڈاؤن کے سماجی اور اقتصادی نقصانات بھی ہیں، اس لئے پسماندہ لوگوں کو بھوک سے بچانے کے لیے پیشگی اقدامات کرنے چاہئیں۔

صحت عامہ کے امریکی ماہر انٹونی فاوسی کا کہنا ہے کہ بھارت میں میڈیکل اور ہیلتھ سسٹم تہہ و بالا ہوگیا ہے، اس لئے اسے چند ہفتوں کے لئے لاک ڈاؤن کرنا چاہیے۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت کو بھی اسی طرح جنگی بنیادوں پر کووِڈ اسپتال تعمیر کرنے چاہیں، جس طرح چین نے کئے ہیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ ملک کو عوام کےلئے آکسیجن، ادویات اور بستروں کو مہیا کرنے کی جانب توجہ دینی چاہیے۔

چونکہ وزیر اعظم کی جانب سے قائم کئے گئے کووِڈ ٹاسک فورس نے بھی اسی طرح کے اقدامات کرنے کی سفارش کی ہے، اس لئے عوام کی زندگیاں بچانے کے لئے اس ضمن میں فوری فیصلے لئے جانے چاہئیں۔ فیڈریشن آف انڈین چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وبا کی شدت کم از کم آنے والے چار پانچ ماہ تک جاری رہ سکتی ہے۔ اس نے تخمینہ لگایا ہے کہ ملک میں کم از کم 2 لاکھ آئی سی یو بستروں، 3 لاکھ نرسوں اور 2 لاکھ مزید جونیئر ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔

کنفڈریشن آف انڈین انڈسٹریز نے بھی ریاستوں کے ساتھ تال میل قائم کرتے ہوئے کورونا ٹیسٹنگ اور ٹیکہ کاری کا عمل بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے لاک ڈاؤن لاگو کرنے کی تجویز کی حمایت کی ہے۔ قوم کو درپیش اس غیر معمولی آفت سے موثر طور نمٹنے کے لئے مرکز کو ریاستوں کے ساتھ رابطہ کرکے مائیگرنٹ مزدوروں کے مسائل پر بھی غور کرنا چاہیے اور اس ضمن میں انسانیت کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہیے۔ کورونا وائرس کے وجہ سے وسیع پیمانے پر ہورہیں اموات کو روکنے کی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔

بے قابو وبا سے نمٹنے کے لیے ایک موثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت

دنیا بھر کی طرح بھارت میں بھی کورونا نے دھماکو صورت حال اختیار کرلی ہے۔ جس کے سبب روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں موتیں ہورہی ہیں۔ دہلی ہائی کورٹ نے حال ہی میں دلی میں میڈیکل آکسیجن کے بڑھتے ہوئے بحران سے متعلق مسئلے کی شنوائی کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسے ایک لہر پکارتے ہیں لیکن اصل میں یہ ایک سونامی ہے۔ گزشتہ سال کووِڈ کا پہلا کیس جنوری میں منظر عام پر آیا تھا اور وبا کو 25 لاکھ متاثرین سے تجاوز کرنے میں چھ ماہ کا وقت لگا تھا۔

دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ گزشتہ سال کے مقابلہ اس سال کووڈ نے تباہی مچائی ہے، اب جسے دوسری لہر قرار دیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے ایک ہفتے میں ہی متاثرین کی تعداد 26 لاکھ سے زیادہ ہوگئی ہے۔ اس عرصے میں 23,800 اموات کا اندراج ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف مارچ کے ماہ میں کووِڈ کی وجہ سے 5,417 اموات ہوئی ہیں۔ جبکہ سرکاری اعداد و شمار یہ بھی بتارہے ہیں کہ اپریل کے ماہ میں اس کی وجہ سے 45,000 انسانی زندگیاں تلف ہوگئی ہیں۔

واضح رہے کہ بھارت میں اب تک متاثرین کی مجموعی تعداد 2 کروڑ تجاوز ہوگئی ہے جبکہ فی الوقت یہاں 34 لاکھ افراد کووِڈ متاثر ہیں۔ یہ سارے اعداد و شمار ایک بڑے سماجی بحران کا عندیہ دے رہے ہیں۔ کئی بین الاقوامی ایجنسیوں نے متنبہ کیا ہے کہ اس ماہ بھارت میں روزانہ متاثرین کی تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کرے گی اور روزانہ 5 ہزار اموات ہوں گی۔ اس انتباہ کے بعد ایک بار پھر ملک گیر لاک ڈاؤن لاگو کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ متاثرین میں سے 75 فیصد کا تعلق مہاراشٹرا، اُتر پردیش، کرناٹک، کیرلا، تامل ناڈو، آندھرا پردیش، مغربی بنگال، راجستھان، چھتیس گڑھ اور دلی سے ہے۔ یہ صورتِ حال ان ریاستوں کے 150 اضلاع، جن میں سب سے زیادہ کیس سامنے آئے ہیں، میں سخت ترین لاک ڈاؤن کے نفاذ کا تقاضا کرتی ہے۔

یاد رہے کہ جہاں ہریانہ اور اُڑیسہ نے حال ہی میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔ وہیں کئی دیگر ریاستوں نے کرفیو نافذ کردیا ہے اور سخت اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وبا قابو ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ کئی ممالک نے بھارت سے مسافروں کی آمد پر روک لگادی ہے اور اس طرح سے ملک کو باہر سے بند کردیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت کو ریاستوں کے ساتھ صلاح و مشورے کے بعد لاک ڈاؤن لاگو کرنا چاہیے تاکہ بیماری کی ترسیل کی زنجیر ٹوٹ جائے۔

عدالتِ عظمیٰ نے بھی حال ہی میں کہا ہے کہ حکومت کو لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لئے لاک ڈاؤن لاگو کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ عدالت نے کہا ہے کہ اسے احساس ہے کہ لاک ڈاؤن کے سماجی اور اقتصادی نقصانات بھی ہیں، اس لئے پسماندہ لوگوں کو بھوک سے بچانے کے لیے پیشگی اقدامات کرنے چاہئیں۔

صحت عامہ کے امریکی ماہر انٹونی فاوسی کا کہنا ہے کہ بھارت میں میڈیکل اور ہیلتھ سسٹم تہہ و بالا ہوگیا ہے، اس لئے اسے چند ہفتوں کے لئے لاک ڈاؤن کرنا چاہیے۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت کو بھی اسی طرح جنگی بنیادوں پر کووِڈ اسپتال تعمیر کرنے چاہیں، جس طرح چین نے کئے ہیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ ملک کو عوام کےلئے آکسیجن، ادویات اور بستروں کو مہیا کرنے کی جانب توجہ دینی چاہیے۔

چونکہ وزیر اعظم کی جانب سے قائم کئے گئے کووِڈ ٹاسک فورس نے بھی اسی طرح کے اقدامات کرنے کی سفارش کی ہے، اس لئے عوام کی زندگیاں بچانے کے لئے اس ضمن میں فوری فیصلے لئے جانے چاہئیں۔ فیڈریشن آف انڈین چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وبا کی شدت کم از کم آنے والے چار پانچ ماہ تک جاری رہ سکتی ہے۔ اس نے تخمینہ لگایا ہے کہ ملک میں کم از کم 2 لاکھ آئی سی یو بستروں، 3 لاکھ نرسوں اور 2 لاکھ مزید جونیئر ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔

کنفڈریشن آف انڈین انڈسٹریز نے بھی ریاستوں کے ساتھ تال میل قائم کرتے ہوئے کورونا ٹیسٹنگ اور ٹیکہ کاری کا عمل بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے لاک ڈاؤن لاگو کرنے کی تجویز کی حمایت کی ہے۔ قوم کو درپیش اس غیر معمولی آفت سے موثر طور نمٹنے کے لئے مرکز کو ریاستوں کے ساتھ رابطہ کرکے مائیگرنٹ مزدوروں کے مسائل پر بھی غور کرنا چاہیے اور اس ضمن میں انسانیت کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہیے۔ کورونا وائرس کے وجہ سے وسیع پیمانے پر ہورہیں اموات کو روکنے کی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔

Last Updated : May 5, 2021, 10:44 AM IST

For All Latest Updates

TAGGED:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.