حیدرآباد (نیوز ڈیسک): معروف نغمہ نگار اور ہدایت کار گلزار کی آج 90ویں سالگرہ ہے۔ گلزار اردو شاعری کو نئی جہت دینے والے عظیم شاعر و نغمہ نگار ہیں۔
مشاعروں اور محفلوں سے ملی شہرت اور کامیابی نے موٹر میکینک کا کام کرنے والے گلزار کو گزشتہ چار دہائیوں میں فلمی دنیا کا ایک عظیم شاعر اور نغمہ نگار بنادیا۔ اردو شاعری کو ایک نئی جہت دینے والے ہندوستان کے مشہور نغمہ نگار اور ہدایتکار گلزار ضلع جہلم (پاکستان)کے ایک چھوٹے سے قصبے دینہ میں کالرا اروڑہ سکھ خاندان میں 18 اگست 1936 کو پیدا ہوئے۔
سمپورن سنگھ کالرا (گلزار) کو اسکول کے دنوں سے ہی شعر و شاعری اور ساز وموسیقی کا بے حد شوق تھا۔ کالج کے دنوں میں ان کا یہ شوق روز افزوں بڑھنے لگا اور وہ اکثر مشہور ستار نواز روی شنکر اور سرود نواز علی اکبر خان کے پروگراموں میں جایا کرتے تھے۔
ہندوستان کی تقسیم کے بعد گلزار کا خاندان امرتسر میں بس گیا لیکن گلزار نے اپنے خواب کو پورا کرنے کے لئے ممبئی کا رخ کیا اور ورلی میں ایک گیراج میں کار میكینك کے طور پر کام کرنے لگے۔ فرصت کے لمحات میں وہ نظمیں لکھا کرتے تھے۔ اسی دوران وہ ڈائریکٹر بمل رائے کے رابطے میں آئے اور ان کے اسسٹنٹ بن گئے۔ بعد میں انہوں نے ڈائریکٹر رشی کیش مکھرجی اور ہیمنت کمار کے اسسٹنٹ کے طور پر بھی کام کیا۔
اس کے بعد شاعر کے طور پر گلزار پروگریسو رائٹرس ایسوسی ایشن (پی ڈبلیو اے ) سے منسلک ہوگئے۔ انہوں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز 1961 میں ومل رائے کے اسسٹنٹ کے طور پر کیا۔ نغمہ نگار کے طور پر گلزار نے اپنا پہلا نغمہ ’’میرا گورا انگ لئی لے‘‘ 1963 میں ریلیز ومل رائے کی فلم بندنی کیلئے لکھا۔
گلزار نے بطور شاعر بے شمار فلموں میں نغمے لکھے، ان کی فلمی شاعری میں ایک اچھوتا پن پایا جاتا ہے۔ شاعری میں تشبیہات کا استعمال ان کے نغموں کو منفرد بناتا ہے۔ انہوں نے 1971 میں فلم ’’میرے اپنے‘‘کے ذریعے ہدایتکاری کے میدان میں بھی قدم رکھا۔ اس فلم کی کامیابی کے بعد کوشش، پریچے، اچانک، خوشبو، آندھی، موسم، کنارا، کتاب، نمکین، انگور، اجازت، لباس ، لیکن، ماچس اور ہو تو تو جیسی کئی فلموں کی ہدایتکاری کی۔
اپنے ابتدائی دنوں میں گلزار کا جھکاؤ بائیں بازو نظریات کی جانب تھا جو ’’میرے اپنے اور آندھی‘‘ جیسی فلموں میں ظاہر ہوتا ہے۔ آندھی میں ہندستانی سیاسی نظام کی بالواسطہ تنقید کی گئی تھی حالانکہ اس فلم پر کچھ وقت کے لئے پابندی بھی لگا دی گئی تھی۔
راہل دیو برمن کی موسیقی میں بطور نغمہ نگار گلزار کی صلاحیت نكھر کر سامنے آئی اور انہوں نے ناظرین اور سامعین کو’’ مسافر ہوں یارو (پریچے)، تیرے بغیر زندگی سے کوئی شکوہ تو نہیں (آندھی)، گھر جائے گی (خوشبو)، میرا کچھ سامان (اجازت)،تجھ سے ناراض نہیں زندگی(معصوم) جیسے ادبی طرز کے نغمات دیئے۔ سنجیو کمار، جتیندر اور جیا بہادری کی اداکاری کو نکھارنے میں گلزار نے اہم کردار نبھایا تھا۔
ہدایتکاری کے علاوہ گلزار نے کئی فلموں کی اسکرپٹ اور ڈائیلاگ بھی لکھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے 1977 میں کتاب اور کنارا جیسی فلموں کی تخلیق بھی كی۔ اپنے نغموں کے لئے وہ اب تک 11 مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ اور تین مرتبہ قومی ایوارڈ سے نوازے جا چکے ہیں۔
سال 2009 میں فلم ’’سلم ڈاگ ملینیئر‘‘میں ان کا نغمہ ’’جے ہو‘‘ کو اسكر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ہندوستانی سنیما میں ان کی شراکت کو دیکھتے ہوئے 2004 میں انہیں ملک کے تیسرے بڑے شہری اعزاز پدم بھوشن سے سرفراز کیا گیا۔
اردو زبان میں گلزار کی مختصر کہانیوں کا مجموعہ ’’دھواں‘‘ کو 2002 میں ساہیتہ اکیڈمی ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ گلزار نے اپنی شاعری کو ایک نئے انداز میں پیش کیا جسے ’’تروینی‘‘کہا جاتا ہے۔ ہندوستانی سنیما کی دنیا میں قابل ذکر شراکت کو دیکھتے ہوئے گلزار فلم انڈسٹری کے اعلی ترین اعزاز دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے بھی نوازے جاچکے ہیں۔
سالگرہ کے موقع پر گلزار کی مشہور زمانہ غزل سماعت فرمائیں۔۔۔
- غزل
خوشبو جیسے لوگ ملے افسانے میں
ایک پرانا خط کھولا انجانے میں
شام کے سائے بالشتوں سے ناپے ہیں
چاند نے کتنی دیر لگا دی آنے میں
رات گزرتے شاید تھوڑا وقت لگے
دھوپ انڈیلو تھوڑی سی پیمانے میں
جانے کس کا ذکر ہے اس افسانے میں
درد مزے لیتا ہے جو دہرانے میں
دل پر دستک دینے کون آ نکلا ہے
کس کی آہٹ سنتا ہوں ویرانے میں
ہم اس موڑ سے اٹھ کر اگلے موڑ چلے
ان کو شاید عمر لگے گی آنے میں