ETV Bharat / bharat

Jamiat on Article 341 مسلم دلتوں کے ریزرویشن پر پابندی آئین کے خلاف، جمعیۃ علماء ہند

دفعہ 341 کے تحت مسلم دلتوں کے ریزرویشن پر پابندی کے خلاف صدر جمعیۃ مولانا محمود مدنی کی طرف سے سینیئر وکیل سی یو سنگھ نے استدلال کیا کہ حکومت کی طرف سے اس معاملے پر نئے کمیشن کا قیام بے معنی ہے۔

author img

By

Published : Apr 13, 2023, 5:31 PM IST

مسلم دلتوں کے ریزرویشن پر پابندی آئین کے خلاف، جمعیۃ علماء ہند
مسلم دلتوں کے ریزرویشن پر پابندی آئین کے خلاف، جمعیۃ علماء ہند

دہلی: دلت سے مسلمان ہونے والوں کو دفعہ 341 کے تحت ملنے والے فوائد سے محروم کئے جانے کے سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی طرف سے ایک عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہے، جس پر آج سماعت ہوئی۔ جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے سینیئر وکیل سی یو سنگھ اور ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ایم آر شمشاد پیش ہوئے۔ اس سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند نے اپنی عرضی میں جسٹس رنگا ناتھ مشرا کمیشن کا حوالہ دیا تھا، جس میں مسلمانوں اور دلت عیسائیوں کو درج فہرست ذاتوں (ایس سی) کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔

حالانکہ حکومت ہند نے رنگاناتھ مشرا کمیشن کی مخالفت کی، حکومت نے اپنے حلفیہ بیان میں کہا کہ رنگاناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ میں خامی ہے، اس لیے حکومت نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے۔ جہاں تک ریزویشن دینے کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں سرکار نے کے جی بالا کرشنن کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو دو سال میں رپورٹ پیش کرے گی، سپریم کورٹ کو اس رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے۔

اس پر سپریم کورٹ نے ایک زبانی تبصرے میں کہا کہ رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ، جسے سرکار تسلیم نہیں کر رہی ہے، اس سے متعلق ایک آئینی سوال ہے جس کا فیصلہ ہونا ہے کہ کیا اس رپورٹ میں دی گئی اعداد و شمار پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں قانونی سوال یہ بھی ہے کہ کیا سپریم کورٹ مداخلت کرکے کسی اور طبقہ کو اس دفعہ میں شامل کرنے کا حکم دے سکتا ہے؟

پورے معاملے کو تفصیل سے سننے کا ذہن بناتے ہوئے عدالت نے کیس کی اگلی سماعت 11 جولائی کو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جسٹس ایس کے کول کی سربراہی میں تین ججوں کی بنچ نے دلت عیسائیوں اور دلت مسلمانوں کے لیے ایس سی زمرے کے لیے ریزرویشن سے متعلق طویل عرصے سے زیر التوا درخواستوں کی سماعت کے دوران یہ مسئلہ اٹھایا۔ بنچ کے ارکان میں جسٹس اے امان اللہ اور جسٹس اروند کمار بھی شامل ہیں۔

ایک درخواست گزار کے وکیل پرشانت بھوشن نے 2011 میں پاس کیے گئے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں آئینی سوالات کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جس میں یہ سوال بھی شامل تھا کہ کیا ہندو، سکھ اور بدھ مت کے علاوہ کسی اور مذہب کی پیروی کرنے والوں کو درج فہرست ذات کے لیے آئین کے پیرا 3 میں دیے گئے شیڈول کاسٹ آرڈر 1950 کے فوائد سے محروم کیا جاسکتا ہے، نیز کیا یہ آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست گزار نے کہا تھا کہ اس لیے حکومت کے ذریعہ ٹال مٹول کے مقصد سے قائم کردہ نئے کمیشن کا ہمیں انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ سینیئر وکیل سی یو سنگھ نے دلیل دی کہ محض حکومت کا یہ کہنا کہ اس نے ایک اور کمیشن تشکیل دیا ہے بے معنی بات ہے۔ ایسی باتوں سے حکومت کا منفی رویہ ظاہر ہوتا ہے اور حکومت آئینی حقائق پر بات کرنے سے گریز کرنے کا ایک بہانہ تلاش رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بارہ بنکی: دفعہ 341 کے تحت مسلم دلتوں کے ریزرویشن پر پابندی، کیوں؟

اس سلسلے میں آج نئی دہلی میں جمعیۃ علماء ہند کے قانونی معاملات کے نگراں نیاز احمد فاروقی ایڈوکیٹ سپریم کورٹ نے کہا کہ آئین کی بنیادوں کا تحفظ ہر شہری کا فرض بنتا ہے، اس لیے جمعیۃ علماء ہند نے مذکورہ معاملے میں عدالت کا رخ کیا ہے۔ یہ تفریق پر مبنی حکم نامہ ہے، اس لیے عدالت سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس تفریق کو جلد ختم کردے گی۔

دہلی: دلت سے مسلمان ہونے والوں کو دفعہ 341 کے تحت ملنے والے فوائد سے محروم کئے جانے کے سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی طرف سے ایک عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہے، جس پر آج سماعت ہوئی۔ جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے سینیئر وکیل سی یو سنگھ اور ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ایم آر شمشاد پیش ہوئے۔ اس سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند نے اپنی عرضی میں جسٹس رنگا ناتھ مشرا کمیشن کا حوالہ دیا تھا، جس میں مسلمانوں اور دلت عیسائیوں کو درج فہرست ذاتوں (ایس سی) کی فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔

حالانکہ حکومت ہند نے رنگاناتھ مشرا کمیشن کی مخالفت کی، حکومت نے اپنے حلفیہ بیان میں کہا کہ رنگاناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ میں خامی ہے، اس لیے حکومت نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے۔ جہاں تک ریزویشن دینے کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں سرکار نے کے جی بالا کرشنن کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو دو سال میں رپورٹ پیش کرے گی، سپریم کورٹ کو اس رپورٹ کا انتظار کرنا چاہیے۔

اس پر سپریم کورٹ نے ایک زبانی تبصرے میں کہا کہ رنگناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ، جسے سرکار تسلیم نہیں کر رہی ہے، اس سے متعلق ایک آئینی سوال ہے جس کا فیصلہ ہونا ہے کہ کیا اس رپورٹ میں دی گئی اعداد و شمار پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ عدالت نے کہا کہ اس معاملے میں قانونی سوال یہ بھی ہے کہ کیا سپریم کورٹ مداخلت کرکے کسی اور طبقہ کو اس دفعہ میں شامل کرنے کا حکم دے سکتا ہے؟

پورے معاملے کو تفصیل سے سننے کا ذہن بناتے ہوئے عدالت نے کیس کی اگلی سماعت 11 جولائی کو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جسٹس ایس کے کول کی سربراہی میں تین ججوں کی بنچ نے دلت عیسائیوں اور دلت مسلمانوں کے لیے ایس سی زمرے کے لیے ریزرویشن سے متعلق طویل عرصے سے زیر التوا درخواستوں کی سماعت کے دوران یہ مسئلہ اٹھایا۔ بنچ کے ارکان میں جسٹس اے امان اللہ اور جسٹس اروند کمار بھی شامل ہیں۔

ایک درخواست گزار کے وکیل پرشانت بھوشن نے 2011 میں پاس کیے گئے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں آئینی سوالات کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جس میں یہ سوال بھی شامل تھا کہ کیا ہندو، سکھ اور بدھ مت کے علاوہ کسی اور مذہب کی پیروی کرنے والوں کو درج فہرست ذات کے لیے آئین کے پیرا 3 میں دیے گئے شیڈول کاسٹ آرڈر 1950 کے فوائد سے محروم کیا جاسکتا ہے، نیز کیا یہ آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہے۔

درخواست گزار نے کہا تھا کہ اس لیے حکومت کے ذریعہ ٹال مٹول کے مقصد سے قائم کردہ نئے کمیشن کا ہمیں انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ سینیئر وکیل سی یو سنگھ نے دلیل دی کہ محض حکومت کا یہ کہنا کہ اس نے ایک اور کمیشن تشکیل دیا ہے بے معنی بات ہے۔ ایسی باتوں سے حکومت کا منفی رویہ ظاہر ہوتا ہے اور حکومت آئینی حقائق پر بات کرنے سے گریز کرنے کا ایک بہانہ تلاش رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بارہ بنکی: دفعہ 341 کے تحت مسلم دلتوں کے ریزرویشن پر پابندی، کیوں؟

اس سلسلے میں آج نئی دہلی میں جمعیۃ علماء ہند کے قانونی معاملات کے نگراں نیاز احمد فاروقی ایڈوکیٹ سپریم کورٹ نے کہا کہ آئین کی بنیادوں کا تحفظ ہر شہری کا فرض بنتا ہے، اس لیے جمعیۃ علماء ہند نے مذکورہ معاملے میں عدالت کا رخ کیا ہے۔ یہ تفریق پر مبنی حکم نامہ ہے، اس لیے عدالت سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اس تفریق کو جلد ختم کردے گی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.