دہلی ہائی کورٹ نے دہلی حکومت کو جنوبی دہلی واقع ڈیفنس کالونی میں غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ مندر کو منہدم کرنے کے موقف کو پورا نہ کرنے اور مذہبی کمیٹی کو اس کی منظوری کے لیے دینے کے معاملے میں کہا کہ یہ انتشار کا باعث بنے گا۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ اگر کوئی بڑا مندر ہے تو لیفٹیننٹ گورنر کی سربراہی میں مذہبی کمیٹی کی ضرورت پڑ سکتی ہے، لیکن اگر کوئی راتوں رات کچھ اینٹیں ڈالتا ہے تو اسے پینل کے حوالے کرنے سے مقصد پورا نہیں ہوگا۔
ڈیفنس کالونی کے ایک رہائشی نے عرضی دائر کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ کورونا کے دوران کسی نے غیر قانونی طور پر بھیشم پیتاما مارگ کے فٹ پاتھ پر ایک عارضی مندر بنادیا ہے۔ یہ مندر درخواست گزار کی جائیداد کے بالکل سامنے واقع ہے۔ اس مندر میں کچھ سماج دشمن عناصر آتے ہیں اور جوا کھیلتے ہیں، جس کی وجہ سے درخواست گزار کو اپنی جائیداد تک رسائی میں مشکل پیش آتی ہے۔
مزید پڑھیں:۔ دہلی ہائی کورٹ نے متاثرہ خاتون کو اسقاط حمل کی اجازت دی
کیس کی سماعت کے دوران دہلی حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل انوپم سریواستو نے کہا کہ مذہبی کمیٹی نے اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے، اگر مندر کو وہاں سے ہٹا دیا جائے تو امن و امان کا سوال پیدا ہو سکتا ہے، پھر عدالت نے دہلی حکومت کے موقف پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس عارضی مندر کو ہٹانے کے لیے مذہبی کمیٹی کو نہیں کہا جا سکتا۔ اس معاملے میں عدالت نے مزید کہا کہ صرف پانچ اینٹیں اور ایک مجسمہ رکھنے سے کیا کوئی بھی جگہ مذہبی جگہ بن جاتی ہے؟ اگر کوئی بڑا مندر ہوتا تو یہ جگہ مذہبی کمیٹی کو دیی جا سکتی تھی۔ اگر آپ کا رویہ ایسا ہی رہا تو پوری دہلی کی جگہ کو مندر کے نام پر قبضہ کرلیا جائے گا۔