اترپردیش کے مئو حلقے سے رکن اسمبلی مختار انصاری کو سپریم کورٹ کے حکم کے بعد پنجاب کی روپڑ جیل سے اترپردیش کے باندہ جیل میں منتقل کردیا گیا ہے۔ منگل کے روز اترپردیش پولیس نے مختار انصاری کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ سخت سکیورٹی کے درمیان گینگسٹر مختار انصاری کو اترپردیش لایا گیا۔ دو سال تک پنجاب کی جیل میں سزا کاٹنے کے بعد اب وہ اترپردیش کے باندہ جیل میں رہیں گے۔
تاوان کا مطالبہ کرنے کے الزام میں مختار پنجاب کی جیل میں بند
دراصل مختار انصاری کے خلاف پنجاب کے موہالی کے ایک بلڈر سے 10 کروڑ روپئے تاوان طلب کرنے کا الزام ہے۔ اسی معاملے میں موہالی پولیس 21 جنوری 2019 کو مختار انصاری کو لے کر اترپردیش سے پنجاب پہنچی تھی۔ اس کے بعد عدالت میں سماعت کے بعد 24 جنوری کو مختار انصاری کو عدالتی حراست میں روپڑ جیل بھیج دیا گیا تھا۔ تب سے اب تک اترپردیش پولیس نے کئی بار کوشش کی کہ مختار انصاری کو پنجاب سے دہلی لایا جائے لیکن ایسا ممکن نہیں ہوپایا۔جب یہ معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تب عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ مختار انصاری کو دو ہفتے تک اترپردیش میں منتقل کردیا جائے۔
مختار کو سیاست وراثت میں ملی
مختار انصاری کو سیاست وراثت میں ملی ہے۔ غازی پور میں پیدا ہوئے مختار انصاری کا خاندان کئی دہائیوں سے کانگریس سے جڑا رہا ہے۔ مختار انصاری کے دادا ڈاکٹر احمد انصاری مجاہد آزادی تھے۔ آزادی کے جدوجہد کے دوران وہ 1926 سے 27 میں انڈین نیشنل کانگریس کے صدر رہے۔ وہ گاندھی جی کے بے حد قریبی مانے جاتے تھے۔ مختار کے داد ڈاکٹر مختار احمد انصاری کے نام پر دہلی میں ایک روڈ بھی ہے۔ خاندان کی اسی وراثت کو مختار کے والد سبحان اللہ انصاری نے آگے بڑھایا۔ مختار انصاری کے والد ایک کمیونسٹ رہنما تھے۔ عوام کے درمیان اچھی پہچان ہونے کے وجہ سے سنہ 1971 کے بلدیاتی انتخابات میں سبحان اللہ انصاری بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے۔
مختار کے خاندان کی زبردست تاریخ
مختار انصاری کے دادا کی طرح نانا بھی ایک مشہور شخصیات تھے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ مہاویر چکر فاتح بریگیڈیئر عثمان مختار انصاری کے نانا تھے۔ جنہوں نے 1947 کی جنگ میں بھارتی فوج کی جانب سے نہ صرف جنگ لڑی بلکہ ہندوستان کو جیت بھی دلائی۔ وہ اس جنگ میں شہید ہوگئے تھے۔
کھیل کود میں اول رہے
مختار انصاری تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیل کود میں بھی اچھے تھے۔ کالج میں پڑھائی کے دوران مختار نے کھیل کود میں متعدد تمغے جیتے۔ اس کے بعد مختار کی زندگی میں نئے پڑاؤ آئے اور آہستہ آہستہ مختار کی سرگرمی سیاست میں بڑھتی گئی۔ سیاست میں آنے کے بعد مختار نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ مختار انصاری کا نام سب سے پہلے سنہ 1988 میں قتل کے ایک مقدمے میں سامنے آیا تھا اور اس کے بعد مختار کا قد بتدریج جرائم کی دنیا میں بڑھنے لگا تھا۔ اسی درمیان سنہ 1995 میں مختار انصاری نے سیاست کی جانب رخ کیا۔ سنہ 1996 میں مختار انصاری پہلی بار قانون ساز اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے۔ دریں اثنا سال 2002 میں مختار اور برجیش پوروانچل میں سب سے بڑے گینگ کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ اس دوران مختار انصاری پر برجیش گینگ نے حملہ کیا۔
جیل میں رہنے کے باوجود مختار پر قتل کا الزام
اس معاملے نے اترپردیش کی سیاست میں ہنگامہ برپا کر دیا۔ اس کے بعد سنہ 2005 میں بی جے پی کے رکن اسمبلی کرشن آنند رائے کا قتل کردیا گیا۔ الزام لگایا گیا تھا کہ مختار انصاری نے بدنام زمانہ بدمعاش منا بجرنگی اور ان کے کارکنوں کے ذریعہ رکن اسمبلی کرشن آنند رائے کا قتل کروایا۔ کرشن آنند رائے کو برجیش سنگھ کا حامی سمجھا جاتا تھا جس وقت کرشن آنند رائے کا قتل کیا گیا اس وقت مختار انصاری جیل میں بند تھے لیکن ان پر کرشن آنند رائے کے قتل کی سازش کا الزام لگایا گیا تھا۔
پوروانچل میں پہلی بار گونجی اے کے 47 کی آواز
کرشن آنند رائے کے قتل کے بارے میں سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اس قتل عام کے دوران پوروانچل کی سرزمین پر پہلی بار ایک ساتھ تقریبا 6 اے کے 47 رائفلز کی آواز سنائی دی تھی۔ کرشن آنند رائے پر حملے کے دوران حملہ آوروں نے اے کے 47 کے 6 سے زیادہ رائفلز کا استعمال کرتے ہوئے 400 سے زیادہ گولیاں چلائی تھیں۔ اس حملے میں کرشن آنند رائے سمیت سات افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ان لوگوں کی لاشوں سے 67 سے زیادہ گولیاں برآمد ہوئی ہیں۔ تاہم یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا۔ اس کے بعد کرشن آنند رائے قتل کیس کے بہت سے گواہوں کو بھی ایک ایک کر کے ہلاک کر دیا گیا۔
40 سے زائد فوجداری مقدمات درج
مختار انصاری پر 40 سے زیادہ مقدمات درج ہیں۔ بی جے پی رکن اسمبلی کرشن آنند رائے قتل کے علاوہ بنارس کے رہنما نند کشور رنگٹا کے اغوا اور قتل کے معاملے میں بھی مختار کا نام سامنے آیا ہے۔ اس کے علاوہ 2005 میں ہونے والے مئو فسادات کا الزام بھی مختار پر ہے۔ اس کے علاوہ ایل ایم جی اسکینڈل میں بھی مختار انصاری کا نام سامنے آیا ہے۔ تاہم ایل ایم جی کیس کی چھان بین کے بعد پولیس نے مختار انصاری کا نام اس کیس سے خارج کردیا۔
مختار انصاری اور برجیش سنگھ کے مابین دشمنی اسی طرح شروع ہوئی
مختار انصاری نے سنہ 1970 میں زمین پر قبضہ کرنا شروع کیا تھا۔ سنہ 1980 میں سید پور میں ایک پلاٹ پر قبضہ کرنے کی وجہ سے صاحب سنگھ گینگ اور مختار گینگ کے درمیان شدید تصادم ہوا۔ صاحب سنگھ کے بعد برجیش سنگھ نے اپنا گروہ بنایا اور غازی پور سمیت پوروانچل کے تمام سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔ اس کے بعد مختار اور برجیش سنگھ کے مابین تصادم شروع ہوگیا۔ اس کے بعد برجیش اور مختار کو پوروانچل کا سب سے بڑا گینگ سمجھا جانے لگا۔
2019 میں یوگی حکومت نے سختی شروع کی
بی جے پی کے رکن اسمبلی کرشن آنند رائے کے قتل کے بعد بی جے پی رہنماؤں میں مختار انصاری کے نام کو لے کر کافی غصہ تھا۔ 2017 میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد یوگی حکومت نے مافیا اور مجرموں کے خلاف مہم شروع کی جس میں مختار کا نام ہٹ لسٹ میں سرفہرست تھا۔ دریں اثنا 2019 میں لوک سبھا انتخابات سے قبل یوگی حکومت نے مختار پر شکنجہ کسنا شروع کردیا۔