گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے، کووِڈ 19 نامی وبا نے دُنیا بھر میں دہشت برپا کر رکھا ہے۔ یہ مہلک وائرس جو دم توڑتا ہوا نظر آرہا تھا، اب پھر سے ایک نئی تبدیلی کے ساتھ سر اُبھارنے لگا ہے۔ اس وائرس میں نئی تبدیلی رونما ہوجانے کی وجہ سے اب یہ پوری انسانیت کے لئے ایک چیلنج بن کر ابھر گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق جنوبی افریقہ، برطانیہ، برازیل، جاپان اور امریکہ میں اس وائرس کی ایک نئی نسل نمودار ہوگئی ہے۔ کینٹ وائرس پکارے جانے والے اس نئے وائرس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ کووِڈ 19 کے مقابلے میں ستر فیصد زیادہ متاثر کن ہے۔ وائرس کا تغیر کے ساتھ سر ابھارنے کی وجہ سے اس سے متعلق شدید خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ ماہرین کی جانب سے از سر نو احتیاطی تدابیر تجویز کئے جارہے ہیں تاکہ یہ وائرس مزید نہ پھیلے۔ آل انڈیا انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز (اے آئی آئی ایم ایس) نے کورونا وائرس کی اس نئی شکل کے حوالے سے مکمل تحقیق پر زور دیا ہے۔ یہ نئی صورتحال موثر اقدامات کی متقاضی ہے۔
دوسری جانب کووِڈ 19 کے بڑھتے ہوئے کیسز نے بھی پریشان کن صورتحال پیدا کردی ہے۔ نئے کیسز میں سے 86 فیصد مہاراشٹرا، کیرلا، پنجاب، کرناٹک، گجرات اور تمل ناڈو میں سامنے آئے ہیں۔ سینٹر فار سیلولر اینڈ مالیکیولر بیالوجی (سی سی ایم بی) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر راکیش مشرا کا کہنا ہےکہ نیا وائرس ان ریاستوں میں پھیل رہے کووِڈ 19 کا سبب نہیں ہے۔ تاہم اُنہوں نے متنبہ کیا ہے کہ کووِڈ 19 سے متعلق احتیاطی تدابیر جیسے کہ جسمانی دوریاں بنائے رکھنے اور ماسک پہننے وغیرہ کے تئیں لاپرواہی کے نتیجے میں دوسری ریاستوں میں صورتحال بدتر ہوسکتی ہے۔ وائرس کو پھیلنے سے روکنا اور وائرس کی نئی قسم کو قابو کرنے ارباب اقتدار کےلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) نے اس تاثر کو غیر حقیقت پسندانہ قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کردیا ہے کہ کووِڈ 19 اس سال کے آخر تک کامیابی کے ساتھ قابو میں آجائے گا۔ اس عالمی ادارے نے وبا کی بدلتی ہوئی شکل پر نظر رکھنے پر زور دیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی ہدایات بھارت جیسے ممالک، جہاں وائرس کے کیسز مزید پھیل رہے ہیں، کےلئے اہمیت کے حامل ہیں۔
سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ ویکیسن لگوانے میں تاخیر صورتحال کو مزید ابتر کرسکتی ہے اور اس کے نتیجے میں تبدیل شدہ وائرس پھیل سکتا ہے۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ وائرس کی اس نئی قسم کا پتہ جانچ کے ذریعے نہیں لگایا جاسکتا ہے، اس لئے یہ زیادہ پھیل سکتا ہے۔ کارپوریٹ اسپتالوں کی جانب سے ویکیسن کی مانگ بڑھنے کے ساتھ ہی تلنگانہ سرکار نے اس ویکیسن کی ضلع اسپتالوں، علاقائی اسپتالوں اور کمیونٹی ہیلتھ سینٹروں میں تقسیم کرنے کی بھی منظوری دے دی ہے۔
مرکزی سرکار نے 60 سال سے زائد عمر کے لوگوں کو ویکیسن لگوانے پر عائد پابندی بھی ہٹا دی ہے۔اب اس عمر کے لوگ دن کے کسی بھی وقت ویکسین لگوا سکتے ہیں۔ تاہم حکومت کے اقدامات اسی تک محدود نہیں رہنے چاہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق موجود رفتار کے لحاظ سے ویکسین ملک کے ہر گاوں تک پہنچنے میں سالوں لگ سکتے ہیں۔ اس تخمینے کے پیش نظر حکومت کی جانب سے ویکسین کی تقسیم کاری میں اور دیگر اقدامات کرنے میں تیزی لانا وقت کی ایک ہم ضرورت ہے۔
ویکسین تیار کرنے کی رفتار اور اسکی مانگ میں بہت زیادہ فرق ہونے کی وجہ سے حکومت کو چاہیے کہ وہ ویکسین تیار کرنے کے حوالے سے اپنی ہدایات میں کچھ نرمی لائے۔ تاکہ یہ ہر فرد کو میسر ہوسکے۔ ویکسین واحد شئے ہے، جس کے سہارے لوگ وبا سے محفوظ ہوسکتے ہیں۔قوم اسی صورت میں خود کو بحران سے نکال پائے گی، جب ویکیسن لگوانے والے لوگوں میں پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز اور بیماری سے لڑنے کی اُن کی قوت کا جائزہ لینے کے لئے مسلسل تحقیق جاری رکھی جائے گی۔