متھرا کی ایک عدالت نے کٹرا کیشیو دیو مندر کے پاس واقع 17ویں صدی کی ایک مسجد کو ہٹانے کے معاملے میں نئی درخواست پر شاہی عیدگاہ مسجد انتظامیہ کمیٹی اور دیگر فریقوں کا موقف جاننے کے لیے نوٹس جاری کیا ہے۔
ضلعی حکومت کے کاونسل سنجے گور نے بتایا کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج دیو کانت شکلا نے ہفتہ کو عید گاہ مسجد ہٹانے کی عرضی کو تسلیم کرنے کے بعد نوٹسز جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقدمہ تفصیلی سماعت کے لیے قابل قبول ہے۔
سول سوٹ کا مقدمہ تسلیم کرنے کے بعد عدالت نے تین دیگر فریقوں سنی وقف بورڈ کے صدر لکھنؤ اور سری کرشنا جنم بھومی کٹرا کیشیو دیو مندر کے منیجنگ ٹرسٹی اور کٹرا کیشیو دیو مندر کے سری کرشن سیوا سنستھان کو بھی نوٹسز جاری کیے ہیں۔
ڈی جی سی گور نے بتایا کہ عدالت نے نئی عرضی پر چاروں فریقوں کا جواب اگلی سماعت 8 مارچ تک طلب کیا۔ اس نئی درخواست کو پرانے کیشیو دیو مندر کے پجاری پون کمار شاستری نے دائر کیا ہے۔
شاستری نے اپنی درخواست میں تین مطالبات کیے ہیں۔ پہلا یہ کہ انہوں نے 13.37 ایکڑ اراضی کو کٹرا کیشیو دیو مندر کمپلیکس بتاتے ہوئے اس کے مالکانہ حق کا دعویٰ کیا ہے۔ اس دائرے میں شاہی عیدگاہ مسجد بھی آتی ہے۔
پون کمارشاستری نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے بزرگ کئی دہائیوں سے دیوتا کے پجاری کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس لیے پورے مندر کمپلیکس کا انتظام کرنا ان کا حق ہے۔
وہیں، شاستری نے متھرا عدالت کے 1967 کے فیصلے کو منسوخ کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے، جس میں شری کرشن جنم استھان سیوا سنستھان اور شاہی عیدگاہ مینجمنٹ کمیٹی کے مابین ایک زمینی معاہدے کی توثیق کی گئی تھی، جس میں مندر اور مسجد کو ایک ساتھ برقرار رکھنے کی اجازت ہے۔
اپنی تیسری درخواست میں شاستری نے شاہی مسجد عیدگاہ کی انتظامی کمیٹی اور لکھنؤ کے سنی وقف بورڈ کے صدر کو ہدایت دینے کا مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسجد کو موجودہ مقام سے ہٹا لیں۔
واضح رہے کہ موجودہ مقدمے کے علاوہ بھی اس معاملے پر متھرا عدالت میں مزید تین مقدمات زیر التوا ہیں۔
مغربی یوپی کے شہرمتھرا کوہندو روایت کے مطابق شری کرشن کی جائے پیدائش کہا جاتا ہےاور وہاں ان کے نام سے مندر بھی ہے۔ جس جگہ کو ان کی جائے پیدائش بتایا جاتا ہے وہاں مسلمانوں کی شاہی عیدگاہ مسجد ہے، جس کے سبب 13.37 ایکڑ اراضی پر تنازع ہے۔
اب اس پوری اراضی کو کرشن جنم بھومی مندرکی ملکیت بتاتے ہوئے مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ عرضی دائر کرنے والوں میں وکلاء رنجنا اگنی ہوتری، ہری شنکر جین، وشنو شنکر جین اور دیگر شامل ہیں۔
واضح رہے کہ ہری شنکر اور وشنو شنکر بابری مسجد معاملے میں ہندوفریق کے پیرو کار رہ چکے ہیں۔ 60 صفحات پر مشتمل اس عرضی پر پیر کی صبح 11 بجے سماعت ہوگی۔