ETV Bharat / bharat

Arshad Madani On Congress فرقہ پرستی پر کانگریس کی لچکدار پالیسیوں سے ملک اور پارٹی کو نقصان پہنچا، ارشد مدنی

جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ آزادی کے 75برس بعد بھی فرقہ پرستی کا جو نظریہ زندہ ہے وہ پہلے سے کہیں زیادہ طاقتورہیں۔ یہی نظریہ اس ملک کی صدیوں پرانی پیار و محبت، اخوت اور بھائی چارہ کے تاریخ کو آگ لگا رہا ہے تو کبھی طاقت کے بل پر مسجد کو مندر بناتا ہے، کبھی ہمارے اداروں املاک اورآثارکومٹانے کی سازش کرتاہے۔

author img

By

Published : May 20, 2023, 7:04 PM IST

Etv Bharat
Etv Bharat

ممبئی: ملک میں موجودہ فرقہ پرستی کی لہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سیدارشد مدنی نے تاریخی تناظرمیں واضح طورپر دعوی کیا کہ ملک کی آزادی کے بعد کانگریس نے جو لچکدارپالیسی اپنائی اس سے فرقہ پرستی کو نہ صرف تقویت ملی بلکہ اسے پھلنے پھولنے کا بھرپورموقع ملا۔انہوں نے یہ دعوی آج یہاں ممبئی کے انجمن اسلام گراؤنڈمیں کے تین روزہ اجلاس کے دوسرے دن مجلس منتظمہ کے اہم اجلاس میں اپنا صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔

جمعیۃ علماء ہند کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق انہوں نے آگے کہا کہ مہاتما گاندھی کا سفاکانہ قتل سیکولرزم کے قتل کے مترادف تھا اوریہیں سے ملک میں فرقہ پرستی کی جڑیں گہری ہوتی گئیں۔ انہوں نے کہاکہ مولانا آزادکی کتاب 'انڈیاونس فریڈم' کا ایک طویل اقتباس پیش کیا جس میں مولانا آزادنے مہاتماگاندھی کے قتل کے بارے میں تفصیل سے لکھا اور واضح طورپر یہ بات بھی لکھی ہے کہ حکومت کی جانب سے ان کو تحفظ فراہم کرنے کی کوئی مؤثرکارروائی نہیں کی گئی۔ حالانکہ اس سے پہلے بم پھینک کر ان کو قتل کرنے کی سازش ہوچکی تھی۔ اس وقت سردارپٹیل وزیر داخلہ تھے۔ اپنی تحریر میں مولانا آزادنے وہ حقائق بھی پیش کئے ہیں جن کی وجہ سے پٹیل گاندھی جی کے خلاف ہوگئے تھے۔ یہی نہیں گاندھی جی کے قتل کے بعد جے پرکاش نارائن جیسے لیڈرنے صاف طورپر کہا تھا کہ وزیر داخلہ گاندھی جی کے قتل کے الزام سے بچ نہیں سکتے۔

مولانا مدنی نے اسی پس منظرمیں کہا کہ اس موقع پر اور اس کے بعد بھی کانگریس نے جس طرح کی لچکدار پالیس اختیارکی اس نے فرقہ پرستی کو پنپنے اورپھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا جبکہ جمعیۃ علماء ہند کی قیادت نے برابر یہ مطالبہ کیا کہ اگر فرقہ پرستی پر قابو نہ پایا گیا تو یہ ملک تباہ ہوجائے گا۔ اس ضمن میں جمعیۃ علماء ہند نے جیل بھرو تحریک بھی شروع کی تھی، لیکن فرقہ پرستی پر قدغن نہیں لگائی جاسکی۔ فرقہ پرستی کے خلاف کانگریس کی پالیسی بدستور لچکدار بنی رہی جس کا خمیازہ خود کانگریس کو بھگتنا پڑا، ایک دن وہ بھی آیا کہ جب اس کے ہاتھ سے اقتدارچھن گیا، کرناٹک کے لئے جاری کانگریس کے انتخابی منشورکا ذکر کرتے ہوئے جس میں فرقہ پرست تنظیموں پر پابندی لگانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اگریہی پالیسی آزادی کے بعد سے اختیارکی جاتی تو ملک کا یہ حال نہ ہوا ہوتا۔ اس لچکدار پالیسی نے ایسے بہت سے لیڈروں کو بھی اقتدار میں پہنچادیا، جن کا سیاسی نظریہ کانگریس کے نظریہ سے مختلف تھا۔ یہ وہی نظریہ ہے جس پر گامزن رہنے کا کانگریس نے جمعیۃ علماء ہند کی قیادت سے وعدہ کیا تھا، انہوں نے یہی بھی کہا کہ ہم اس ملک سے محبت کرنے والے لوگ ہیں، یہ وہی سرزمین ہے جس پر حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے اتارا گیا تھا، دنیا میں جس قدربھی انسانی نسلیں آباد ہیں ان کی اصل بنیاد بھارت ہی ہے۔ تمام لوگ انسان ہونے کی حیثیت سے ہمارے بھائی ہیں۔ یہی وہ بنیاد ی نقطہ نظرہے جو جمعیۃ علما ہند،اس کے اکابرین اورمتحدہ قومیت کی بنیادہے۔

انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ آزادی کے فوراً بعد ملک کی تقسیم مسلمانوں کے لئے تباہ کن ثابت ہوئی، اس کے پیچھے مذہب اور دوقومی نظریہ تھا جو ہمارے اکابرین کی نظرمیں غلط تھا اور غلط ہے اور قیامت تک غلط رہے گا۔ ہمارے اکابرین متحدہ قومیت کے نظریہ کے طرفدار تھے چنانچہ جمعیۃ علماء ہند اپنے اکابرین کے اسی نظریہ پر قائم ہے اور ہمیشہ قائم رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے 75برس بعد بھی فرقہ پرستی کا جو نظریہ زندہ ہے وہ پہلے سے کہیں زیادہ طاقتورہیں۔ یہی نظریہ اس ملک کی صدیوں پرانی پیار و محبت، اخوت اور بھائی چارہ کے تاریخ کو آگ لگا رہا ہے تو کبھی طاقت کے بل پر مسجد کو مندر بناتا ہے، کبھی ہمارے اداروں املاک اورآثارکومٹانے کی سازش کرتاہے۔ فسادات کا نہ توسلسلہ رکااورنہ ہی فرقہ پرستی کے خلاف کوئی قانون بناایسے میں ایک بڑاسوال یہ ہے کہ مسلمان کیا کرے؟ یہ ایسا موضوع ہے جس پر ہمیں مل کر سنجیدگی سے غوروفکرکرناچاہئے۔

مولانا سیدارشد مدنی نے ارتدادکے فتنہ کا بھی ذکرکیا اورکہا کہ مسلمانوں خاص طورپر شمالی ہند کے مسلمانوں کو اسے روکنے کی عملی کوشش کے تحت لڑکے اورلڑکیوں کے لئے الگ الگ اسکول وکالج کھولنے چاہئے۔جہاں ان کے لئے دنیاوی تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم کا بھی اہتمام ہوں،اورہماراعمل کچھ ایسا ہونا چاہئے کہ برادران وطن بھی اپنی لڑکیوں کو ان تعلیمی اداروں میں بھیجنے پر مجبورہوجائیں۔ انہوں نے آگے کہا کہ ملک کی اکثریت سیکولرہیں، کرناٹک کے حالیہ الیکشن کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ الیکشن ہندومسلم دشمنی کی بنیادپر لڑاگیا مگر عوام کی اکثریت نے اسے مستردکردیا یہ ہماراملک ہے ہمارے مضبوط عقیدہ کا پہلاپتھریہیں رکھا گیا۔ اس لئے ملک کی قیمتی اورمالا مال وراثت اورتاریخ کو زندہ رکھنابھی ہم سب کا فرض ہے، انہوں نے مشورہ دیا کہ مسلمان اپنی تقریبات میں برادرا ن وطن کو مدعوکریں اورخودبھی ان کے دکھ، درداورخوشی میں شریک ہوں انہیں مدارس کے جلسوں اورتقریبات میں بھی مدعوکیا جائے ایسا کرکے ہم اسلام کے تعلق سے پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا ازالہ کرسکتے ہیں۔

انہوں نے آخرمیں کہا کہ ہم پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ہم دہشت گردوں کو قانونی مددفراہم کرکے آزاد کرارہے ہیں یہ الزام سراسرلغواوربے بنیادہے۔ ہماراہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ جو لوگ دہشت گردی اورملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث پائے جائیں انہیں سخت سے سخت سزادی جائے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگزنہیں کہ اس کی آڑمیں بے گناہوں کو دہشت گردقراردیکر جیلوں میں ٹھوس دیا جائے انہوں نے کہا کہ عدالتوں کے فیصلوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ زیادہ ترمعاملوں میں گرفتارکئے گئے لوگ بے گناہ تھے۔ اس اجلاس میں کثیر تعدادمیں ملک بھرسے آئے ہوئے مندوبین نے شرکت کی، مجلس منتظمہ کے پہلے شیشن میں اتفاق رائے سے دونائب صدورمولاناعبدالعلیم فاروقی و مولانااسجد مدنی اوربطور خازن حاجی جمال کا انتخاب عمل میں آیا۔


یہ بھی پڑھیں: Jamiat Ulema Hind Maharashtra کراڑ پورہ فساد میں صرف مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کیوں؟ جمعیت علماء ہند


یو این آئی

ممبئی: ملک میں موجودہ فرقہ پرستی کی لہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سیدارشد مدنی نے تاریخی تناظرمیں واضح طورپر دعوی کیا کہ ملک کی آزادی کے بعد کانگریس نے جو لچکدارپالیسی اپنائی اس سے فرقہ پرستی کو نہ صرف تقویت ملی بلکہ اسے پھلنے پھولنے کا بھرپورموقع ملا۔انہوں نے یہ دعوی آج یہاں ممبئی کے انجمن اسلام گراؤنڈمیں کے تین روزہ اجلاس کے دوسرے دن مجلس منتظمہ کے اہم اجلاس میں اپنا صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔

جمعیۃ علماء ہند کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق انہوں نے آگے کہا کہ مہاتما گاندھی کا سفاکانہ قتل سیکولرزم کے قتل کے مترادف تھا اوریہیں سے ملک میں فرقہ پرستی کی جڑیں گہری ہوتی گئیں۔ انہوں نے کہاکہ مولانا آزادکی کتاب 'انڈیاونس فریڈم' کا ایک طویل اقتباس پیش کیا جس میں مولانا آزادنے مہاتماگاندھی کے قتل کے بارے میں تفصیل سے لکھا اور واضح طورپر یہ بات بھی لکھی ہے کہ حکومت کی جانب سے ان کو تحفظ فراہم کرنے کی کوئی مؤثرکارروائی نہیں کی گئی۔ حالانکہ اس سے پہلے بم پھینک کر ان کو قتل کرنے کی سازش ہوچکی تھی۔ اس وقت سردارپٹیل وزیر داخلہ تھے۔ اپنی تحریر میں مولانا آزادنے وہ حقائق بھی پیش کئے ہیں جن کی وجہ سے پٹیل گاندھی جی کے خلاف ہوگئے تھے۔ یہی نہیں گاندھی جی کے قتل کے بعد جے پرکاش نارائن جیسے لیڈرنے صاف طورپر کہا تھا کہ وزیر داخلہ گاندھی جی کے قتل کے الزام سے بچ نہیں سکتے۔

مولانا مدنی نے اسی پس منظرمیں کہا کہ اس موقع پر اور اس کے بعد بھی کانگریس نے جس طرح کی لچکدار پالیس اختیارکی اس نے فرقہ پرستی کو پنپنے اورپھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا جبکہ جمعیۃ علماء ہند کی قیادت نے برابر یہ مطالبہ کیا کہ اگر فرقہ پرستی پر قابو نہ پایا گیا تو یہ ملک تباہ ہوجائے گا۔ اس ضمن میں جمعیۃ علماء ہند نے جیل بھرو تحریک بھی شروع کی تھی، لیکن فرقہ پرستی پر قدغن نہیں لگائی جاسکی۔ فرقہ پرستی کے خلاف کانگریس کی پالیسی بدستور لچکدار بنی رہی جس کا خمیازہ خود کانگریس کو بھگتنا پڑا، ایک دن وہ بھی آیا کہ جب اس کے ہاتھ سے اقتدارچھن گیا، کرناٹک کے لئے جاری کانگریس کے انتخابی منشورکا ذکر کرتے ہوئے جس میں فرقہ پرست تنظیموں پر پابندی لگانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اگریہی پالیسی آزادی کے بعد سے اختیارکی جاتی تو ملک کا یہ حال نہ ہوا ہوتا۔ اس لچکدار پالیسی نے ایسے بہت سے لیڈروں کو بھی اقتدار میں پہنچادیا، جن کا سیاسی نظریہ کانگریس کے نظریہ سے مختلف تھا۔ یہ وہی نظریہ ہے جس پر گامزن رہنے کا کانگریس نے جمعیۃ علماء ہند کی قیادت سے وعدہ کیا تھا، انہوں نے یہی بھی کہا کہ ہم اس ملک سے محبت کرنے والے لوگ ہیں، یہ وہی سرزمین ہے جس پر حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے اتارا گیا تھا، دنیا میں جس قدربھی انسانی نسلیں آباد ہیں ان کی اصل بنیاد بھارت ہی ہے۔ تمام لوگ انسان ہونے کی حیثیت سے ہمارے بھائی ہیں۔ یہی وہ بنیاد ی نقطہ نظرہے جو جمعیۃ علما ہند،اس کے اکابرین اورمتحدہ قومیت کی بنیادہے۔

انہوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ آزادی کے فوراً بعد ملک کی تقسیم مسلمانوں کے لئے تباہ کن ثابت ہوئی، اس کے پیچھے مذہب اور دوقومی نظریہ تھا جو ہمارے اکابرین کی نظرمیں غلط تھا اور غلط ہے اور قیامت تک غلط رہے گا۔ ہمارے اکابرین متحدہ قومیت کے نظریہ کے طرفدار تھے چنانچہ جمعیۃ علماء ہند اپنے اکابرین کے اسی نظریہ پر قائم ہے اور ہمیشہ قائم رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے 75برس بعد بھی فرقہ پرستی کا جو نظریہ زندہ ہے وہ پہلے سے کہیں زیادہ طاقتورہیں۔ یہی نظریہ اس ملک کی صدیوں پرانی پیار و محبت، اخوت اور بھائی چارہ کے تاریخ کو آگ لگا رہا ہے تو کبھی طاقت کے بل پر مسجد کو مندر بناتا ہے، کبھی ہمارے اداروں املاک اورآثارکومٹانے کی سازش کرتاہے۔ فسادات کا نہ توسلسلہ رکااورنہ ہی فرقہ پرستی کے خلاف کوئی قانون بناایسے میں ایک بڑاسوال یہ ہے کہ مسلمان کیا کرے؟ یہ ایسا موضوع ہے جس پر ہمیں مل کر سنجیدگی سے غوروفکرکرناچاہئے۔

مولانا سیدارشد مدنی نے ارتدادکے فتنہ کا بھی ذکرکیا اورکہا کہ مسلمانوں خاص طورپر شمالی ہند کے مسلمانوں کو اسے روکنے کی عملی کوشش کے تحت لڑکے اورلڑکیوں کے لئے الگ الگ اسکول وکالج کھولنے چاہئے۔جہاں ان کے لئے دنیاوی تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم کا بھی اہتمام ہوں،اورہماراعمل کچھ ایسا ہونا چاہئے کہ برادران وطن بھی اپنی لڑکیوں کو ان تعلیمی اداروں میں بھیجنے پر مجبورہوجائیں۔ انہوں نے آگے کہا کہ ملک کی اکثریت سیکولرہیں، کرناٹک کے حالیہ الیکشن کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ الیکشن ہندومسلم دشمنی کی بنیادپر لڑاگیا مگر عوام کی اکثریت نے اسے مستردکردیا یہ ہماراملک ہے ہمارے مضبوط عقیدہ کا پہلاپتھریہیں رکھا گیا۔ اس لئے ملک کی قیمتی اورمالا مال وراثت اورتاریخ کو زندہ رکھنابھی ہم سب کا فرض ہے، انہوں نے مشورہ دیا کہ مسلمان اپنی تقریبات میں برادرا ن وطن کو مدعوکریں اورخودبھی ان کے دکھ، درداورخوشی میں شریک ہوں انہیں مدارس کے جلسوں اورتقریبات میں بھی مدعوکیا جائے ایسا کرکے ہم اسلام کے تعلق سے پھیلائی گئی غلط فہمیوں کا ازالہ کرسکتے ہیں۔

انہوں نے آخرمیں کہا کہ ہم پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ہم دہشت گردوں کو قانونی مددفراہم کرکے آزاد کرارہے ہیں یہ الزام سراسرلغواوربے بنیادہے۔ ہماراہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ جو لوگ دہشت گردی اورملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث پائے جائیں انہیں سخت سے سخت سزادی جائے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگزنہیں کہ اس کی آڑمیں بے گناہوں کو دہشت گردقراردیکر جیلوں میں ٹھوس دیا جائے انہوں نے کہا کہ عدالتوں کے فیصلوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ زیادہ ترمعاملوں میں گرفتارکئے گئے لوگ بے گناہ تھے۔ اس اجلاس میں کثیر تعدادمیں ملک بھرسے آئے ہوئے مندوبین نے شرکت کی، مجلس منتظمہ کے پہلے شیشن میں اتفاق رائے سے دونائب صدورمولاناعبدالعلیم فاروقی و مولانااسجد مدنی اوربطور خازن حاجی جمال کا انتخاب عمل میں آیا۔


یہ بھی پڑھیں: Jamiat Ulema Hind Maharashtra کراڑ پورہ فساد میں صرف مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کیوں؟ جمعیت علماء ہند


یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.