ETV Bharat / bharat

کووِڈ 19 کی نئی لہر سے متعلق پوچھے جانے والے عام سوالات - ETV bharat urdu

کووِڈ 19 کی اس نئی قسم کی وجہ سے بھارت کو ایک بڑے جیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن ہمارے طبی حکام بہتر طریقے سے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کےلئے تیار ہیں۔ تاہم یہ بات بہت ضروری ہے کہ لوگ مکمل احتیاط کریں تاکہ اسپتالوں پر کم دباو پڑے۔ دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ ابھی تک اس وبا کا حتمی علاج میسر نہیں ہے، اس لئے خود کو ٹیکہ لگوانا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ٹیکہ لگوانے کے بعد اگر آپ وائرس سے متاثر ہوبھی جائیں گے تو اس کے زیادہ اثرات نہیں ہوں گے۔

COVID-19
COVID-19
author img

By

Published : Apr 12, 2021, 12:33 PM IST

ایک ایسے وقت میں جب کووِڈ 19 کی ایک نئی لہر نے ملک بھر میں خوف پیدا کردیا ہے، سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر اس سے متعلق افواہیں اور جھوٹی اطلاعات پھیلائی جارہی ہیں۔ جبکہ دوسری جانب لوگ اس وبا کے خطرے سے واقف ہونے کے باوجود لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ اگرچہ حکومت وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور دے رہی ہے لیکن مختلف جگہوں پر بھیڑ بھاڑ کرنا، ماسک نہ پہننا یا پھر اسے ناک کو نہ ڈھانپتے ہوئے پہننا اور سیر و تفریح پر جانا، جیسی باتیں ان دنوں عام طور سے دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ لوگ اس وبا، جو مسلسل پھیل رہی ہے، کے بارے میں یہ ماننے سے انکار کر رہے ہیں کہ یہ بہت خطرناک وبا ہے۔

ای ٹی وی بھارت نے وی آئی این این اسپتال حیدر آباد کے کنسلٹنٹ فزیشین ڈاکٹر راجیش ووک کالا سے بات چیت میں اُن سوالات کے جواب حاصل کئے ہیں، جو کووِڈ 19 کی نی لہر سے متلعق ہر ذہن میں اٹھتے ہیں۔

پیش ہیں انٹرویو کے اقتباسات:

کووِڈ کی یہ نئی لہر کس لحاظ سے مختلف ہے؟

اس وائرس کی نئی شکل پہلے پھیلنے والے وائرس کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے۔ یہ بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ میں نے اس وائرس کے نتیجے میں پورے کنبے کو متاثر ہوتے ہوئے دیکھا ہے، جبکہ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اس سے پہلے انسان خود کو الگ تھلگ رکھے، وائرس پہلے ہی دیگر افراد خانہ میں منتقل ہوچکا ہوتا ہے۔

کیا اس وائرس کے شکار افراد زیادہ خطرے سے دوچار ہیں؟

اب جبکہ ہم ایک سال سے زائد عرصے سے اس وبا کا سامنا کر رہے ہیں، ہمیں اب اس بات کی زیادہ جانکاری حاصل ہے کہ مریض کی صورتحال خطرناک کیسے ہوجاتی ہے۔ اس لئے ہم آج اس پوزیشن میں ہیں کہ اگر مریض زیادہ بُری حالت میں بھی ہو، تو اسے صحت یاب کیا جاسکتا ہے۔ لیکن دوسری جانب نئی لہر پھیلنے کے ساتھ ہی اسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ چونکہ اب ہم اس وبا سے متعلق زیادہ جانکاری رکھتے ہیں، اس لئے طبی ٹیمیں ایسے مریضوں سے زیادہ بہتر طریقے سے نمٹ پارہی ہیں اور ہم زیادہ سے زیادہ زندگیاں بچا پارہے ہیں۔

وبا کی نئی علامات کیا ہیں؟

سابق علامات کے علاوہ اس وائرس کی اس نئی شکل کی وجہ سے متاثرین میں کچھ نئی علامات بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان میں دست اور معدے سے جڑی دیگر بیماریوں کا نمودار ہونا اور سردی کھانسی جیسی علامات شامل ہیں، جو پہلے دیکھنے کو نہیں ملتی تھیں۔ تاہم بخار کی شدت اب کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ دیگر علامات میں بدن میں درد اور سستی محسوس کرنا شامل ہے۔ تاہم یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ بعض لوگ جو وائرس سے متاثر ہوتے ہیں، میں کوئی ظاہری علامات نظر نہیں آتی ہیں۔ یہ بات زیادہ پریشان کن ہے کیونکہ ایسے لوگ لاعلمی کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ وائرس پھیلا سکتے ہیں۔

بگڑتی صورتحال میں کیا کیا جانا چاہیے؟

حالت بگڑنے کو روکنے کےلئے ابتدائی مرحلے پر ہی علاج و معالجہ بہت ضروری ہے۔ جوں ہی آپ کو وائرس سے متاثر ہونے کی علامات محسوس ہوں، فوراً اپنی جانچ کرائیں تاکہ یہ دوسروں تک نہ پھیلے۔ اگر جانچ میں وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق ہو تو الگ تھلگ ہوجائیں اور تجویز شدہ ادویات مسلسل لیتے رہیں۔ خود پر نظر رکھیں اور اپنی آکسیجن لیول اور بخار کی جانچ کرتے رہیں۔ اگر آپ کو محسوس ہو کہ آپ میں پائی جانے والی علامات بڑھ رہی ہیں یا آکسیجن کی سطح کم ہورہی ہے تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں اور پتہ کریں کہ کہیں آپ کو اسپتال میں داخل ہوجانے کی ضرورت تو نہیں ہے۔ اس طرح سے آپ کو بروقت بہتر نگہداشت میسر ہوگی۔ اس کے علاوہ، طبی حکام اور متعلقہ وزارت کی جانب سے بتائی گئیں گائیڈ لائنز پر پہلے سے زیادہ سختی سے عمل کریں۔ بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں جانے سے گریز کریں اور زیادہ سے زیادہ اپنے گھروں میں ہی رہیں۔ ماسک پہنیں اور صفائی وغیرہ کا خاص خیال رکھیں۔

وائرس کی نئی لہر کی وجہ سے بچے بھی متاثر ہورہے ہیں۔ ایسا کیوں؟

چونکہ وائرس نے ایک نئی شکل اختیار کرلی ہے، اس کی فطرت بھی بدل چ کی ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ بالکل ایک نیا وائرس ہے اور زیادہ خطرناک ہے۔ اس لئے یہ اب بچوں کو بھی متاثر کرتا ہے، جو پہلے جیسے وائرس کی وجہ سے متاثر نہیں ہوتے تھے۔

کیا وجہ ہے کہ ویکیسن کی دوسری خوراک لینے کے باوجود لوگ متاثر ہورہے ہیں؟

میں نے دیکھا ہے کہ کووِڈ 19 سے متاثر ہوجانے کے بعد صحت یاب ہوکر بھی، یا ویکیسن کی بدولت وافر مقدار میں اینٹی باڈیز پیدا کرچکے لوگ بھی وائرس کی اس نئی لہر سے متاثر ہورہے ہیں۔ تاہم ہمارے پاس ایسے اعداد و شمار نہیں ہیں، جن کے بل بوتے پر ہم وثوق سے کہہ پاتے کہ یہ وائرس کس طرح سے اثر انداز ہوجاتا ہے۔

اس لئے کووِڈ 19 کی اس نئی قسم کی وجہ سے بھارت کو ایک شدید چیلینج درپیش ہے۔ لیکن ہمارے طبی حکام بہتر طریقے سے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کےلئے تیار ہیں۔ تاہم یہ بات بہت ضروری ہے کہ لوگ مکمل احتیاط کریں تاکہ اسپتالوں پر کم دباو پڑے۔ دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ ابھی تک اس وبا کا حتمی علاج میسر نہیں ہے، اس لئے خود کو ٹیکہ لگوانا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ٹیکہ لگوانے کے بعد اگر آپ وائرس سے متاثر ہوبھی جائیں گے تو اس کے زیادہ اثرات نہیں ہوں گے۔

ایک ایسے وقت میں جب کووِڈ 19 کی ایک نئی لہر نے ملک بھر میں خوف پیدا کردیا ہے، سماجی رابطے کی ویب سائٹوں پر اس سے متعلق افواہیں اور جھوٹی اطلاعات پھیلائی جارہی ہیں۔ جبکہ دوسری جانب لوگ اس وبا کے خطرے سے واقف ہونے کے باوجود لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے نظر آرہے ہیں۔ اگرچہ حکومت وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر زور دے رہی ہے لیکن مختلف جگہوں پر بھیڑ بھاڑ کرنا، ماسک نہ پہننا یا پھر اسے ناک کو نہ ڈھانپتے ہوئے پہننا اور سیر و تفریح پر جانا، جیسی باتیں ان دنوں عام طور سے دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ لوگ اس وبا، جو مسلسل پھیل رہی ہے، کے بارے میں یہ ماننے سے انکار کر رہے ہیں کہ یہ بہت خطرناک وبا ہے۔

ای ٹی وی بھارت نے وی آئی این این اسپتال حیدر آباد کے کنسلٹنٹ فزیشین ڈاکٹر راجیش ووک کالا سے بات چیت میں اُن سوالات کے جواب حاصل کئے ہیں، جو کووِڈ 19 کی نی لہر سے متلعق ہر ذہن میں اٹھتے ہیں۔

پیش ہیں انٹرویو کے اقتباسات:

کووِڈ کی یہ نئی لہر کس لحاظ سے مختلف ہے؟

اس وائرس کی نئی شکل پہلے پھیلنے والے وائرس کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے۔ یہ بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ میں نے اس وائرس کے نتیجے میں پورے کنبے کو متاثر ہوتے ہوئے دیکھا ہے، جبکہ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اس سے پہلے انسان خود کو الگ تھلگ رکھے، وائرس پہلے ہی دیگر افراد خانہ میں منتقل ہوچکا ہوتا ہے۔

کیا اس وائرس کے شکار افراد زیادہ خطرے سے دوچار ہیں؟

اب جبکہ ہم ایک سال سے زائد عرصے سے اس وبا کا سامنا کر رہے ہیں، ہمیں اب اس بات کی زیادہ جانکاری حاصل ہے کہ مریض کی صورتحال خطرناک کیسے ہوجاتی ہے۔ اس لئے ہم آج اس پوزیشن میں ہیں کہ اگر مریض زیادہ بُری حالت میں بھی ہو، تو اسے صحت یاب کیا جاسکتا ہے۔ لیکن دوسری جانب نئی لہر پھیلنے کے ساتھ ہی اسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ چونکہ اب ہم اس وبا سے متعلق زیادہ جانکاری رکھتے ہیں، اس لئے طبی ٹیمیں ایسے مریضوں سے زیادہ بہتر طریقے سے نمٹ پارہی ہیں اور ہم زیادہ سے زیادہ زندگیاں بچا پارہے ہیں۔

وبا کی نئی علامات کیا ہیں؟

سابق علامات کے علاوہ اس وائرس کی اس نئی شکل کی وجہ سے متاثرین میں کچھ نئی علامات بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان میں دست اور معدے سے جڑی دیگر بیماریوں کا نمودار ہونا اور سردی کھانسی جیسی علامات شامل ہیں، جو پہلے دیکھنے کو نہیں ملتی تھیں۔ تاہم بخار کی شدت اب کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ دیگر علامات میں بدن میں درد اور سستی محسوس کرنا شامل ہے۔ تاہم یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ بعض لوگ جو وائرس سے متاثر ہوتے ہیں، میں کوئی ظاہری علامات نظر نہیں آتی ہیں۔ یہ بات زیادہ پریشان کن ہے کیونکہ ایسے لوگ لاعلمی کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ وائرس پھیلا سکتے ہیں۔

بگڑتی صورتحال میں کیا کیا جانا چاہیے؟

حالت بگڑنے کو روکنے کےلئے ابتدائی مرحلے پر ہی علاج و معالجہ بہت ضروری ہے۔ جوں ہی آپ کو وائرس سے متاثر ہونے کی علامات محسوس ہوں، فوراً اپنی جانچ کرائیں تاکہ یہ دوسروں تک نہ پھیلے۔ اگر جانچ میں وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق ہو تو الگ تھلگ ہوجائیں اور تجویز شدہ ادویات مسلسل لیتے رہیں۔ خود پر نظر رکھیں اور اپنی آکسیجن لیول اور بخار کی جانچ کرتے رہیں۔ اگر آپ کو محسوس ہو کہ آپ میں پائی جانے والی علامات بڑھ رہی ہیں یا آکسیجن کی سطح کم ہورہی ہے تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں اور پتہ کریں کہ کہیں آپ کو اسپتال میں داخل ہوجانے کی ضرورت تو نہیں ہے۔ اس طرح سے آپ کو بروقت بہتر نگہداشت میسر ہوگی۔ اس کے علاوہ، طبی حکام اور متعلقہ وزارت کی جانب سے بتائی گئیں گائیڈ لائنز پر پہلے سے زیادہ سختی سے عمل کریں۔ بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں جانے سے گریز کریں اور زیادہ سے زیادہ اپنے گھروں میں ہی رہیں۔ ماسک پہنیں اور صفائی وغیرہ کا خاص خیال رکھیں۔

وائرس کی نئی لہر کی وجہ سے بچے بھی متاثر ہورہے ہیں۔ ایسا کیوں؟

چونکہ وائرس نے ایک نئی شکل اختیار کرلی ہے، اس کی فطرت بھی بدل چ کی ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ بالکل ایک نیا وائرس ہے اور زیادہ خطرناک ہے۔ اس لئے یہ اب بچوں کو بھی متاثر کرتا ہے، جو پہلے جیسے وائرس کی وجہ سے متاثر نہیں ہوتے تھے۔

کیا وجہ ہے کہ ویکیسن کی دوسری خوراک لینے کے باوجود لوگ متاثر ہورہے ہیں؟

میں نے دیکھا ہے کہ کووِڈ 19 سے متاثر ہوجانے کے بعد صحت یاب ہوکر بھی، یا ویکیسن کی بدولت وافر مقدار میں اینٹی باڈیز پیدا کرچکے لوگ بھی وائرس کی اس نئی لہر سے متاثر ہورہے ہیں۔ تاہم ہمارے پاس ایسے اعداد و شمار نہیں ہیں، جن کے بل بوتے پر ہم وثوق سے کہہ پاتے کہ یہ وائرس کس طرح سے اثر انداز ہوجاتا ہے۔

اس لئے کووِڈ 19 کی اس نئی قسم کی وجہ سے بھارت کو ایک شدید چیلینج درپیش ہے۔ لیکن ہمارے طبی حکام بہتر طریقے سے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کےلئے تیار ہیں۔ تاہم یہ بات بہت ضروری ہے کہ لوگ مکمل احتیاط کریں تاکہ اسپتالوں پر کم دباو پڑے۔ دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ ابھی تک اس وبا کا حتمی علاج میسر نہیں ہے، اس لئے خود کو ٹیکہ لگوانا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ٹیکہ لگوانے کے بعد اگر آپ وائرس سے متاثر ہوبھی جائیں گے تو اس کے زیادہ اثرات نہیں ہوں گے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.