بھارت کی سیاست میں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی اہمیت کو اس ملک کا کوئی فرد کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ ماہر اقتصادیات، محب وطن، اعلی ظرف و بلند خیال، فلسفی، قانون داں اور بھارتی آئین کے معمار بی آر امبیڈکر نے اپنی پوری زندگی ذات پات، معاشرے میں پھیلی عدم مساوات کو ختم کرنے میں وقف کر دی۔
امبیڈکر مدھیہ پردیش کے مہو میں رام جی ملوجی سکپال اور بھیما بائی مربادکر سکپال کے گھر میں 14 اپریل 1891 کو پیدا ہوئے۔ بھیم راؤ رام جی امبیڈکر بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔ انہوں نے نہ صرف مشکل حالات میں جدوجہد کرکے اعلی تعلیم حاصل کی، بلکہ معاشرے کو بھی تعلیم یافتہ بنایا۔
والدین کے ساتھ ان کے خاندان میں 16 افراد تھے، امبیڈکر ان میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کا تعلق مراٹھا خاندان سے تھا اور ان کی ذات مہار تھی جسے معاشرے میں اچھوت کہا جاتا تھا۔
امبیڈکر کے والد رام جی مولوجی سکپال ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازم تھے۔ ان کے والد اس وقت کی ہند برطانوی فوج میں اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔
انہوں نے ابتدائی تعلیم ایک مقامی اسکول میں حاصل کی اور اعلی تعلیم پولیٹیکل سائنس اور معاشیات میں مکمل کی۔ اس کے بعد بڑودہ کے گائیکواڈ حکمران کے تیسرے بادشاہ نے انہیں اعلی تعلیم کے لیے امریکہ بھیجا۔ جہاں ان کا انتخاب کولمبیا یونیورسٹی میں ہوا۔
امبیڈکر جنہوں نے نہ صرف بیرون ملک کا سفر طے کر کے اقتصادیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور پہلے بھارتی بنے، بلکہ وہ پورے جنوبی ایشیا میں پہلے واحد شخص بھی تھے، جن کے پاس اکنامکس میں ڈبل ڈاکٹریٹ کی ڈگری تھی۔ اس زمانے میں ان کا شمار اعلی تعلیم یافتہ بھارتیوں میں ہوتا تھا۔
کولمبیا یونیورسٹی میں تین برسوں کے دوران امبیڈکر نے معاشیات کے انیس کورس، تاریخ میں گیارہ ، سوشیالوجی میں چھ ، فلسفہ میں پانچ، انتھروپولوجی میں چار ، سیاست میں تین اور فرانسیسی اور جرمن میں ایک ایک کورس کیا تھا۔
سنہ 1951 میں ہندوستانی پارلیمنٹ کے ذریعہ جب ہندو کوڈ بل کو مسترد کردیا گیا تب امبیڈکر نے ہندوستان کے پہلے وزیر قانون کے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس بل کے دو اہم مقاصد تھے ۔پہلا ہندو خواتین کو ان کے مناسب حقوق دے کر انہیں معاشرتی مقام کو بلند کیا جانا اور دوسرا معاشرتی تفاوت اور ذات پات کے عدم مساوات کو ختم کرنا تھا۔انہوں نے دلتوں کے حقوق کے لیے کئی تحریک کا آغاز کیا، جیسے موک نائیک، بھئے شکتی بھارت اور ایکوالیٹی جنتا۔
انہوں نے ہندو کوڈ بل میں خواتین کو خاندانی املاک میں حصہ دینے، اپنی مرضی سے طلاق دینے اور لڑکیوں کو گود لینے کی اجازت دینے کی بات کہی تھی۔اس بل میں مرد اور خاتون دونوں کو حق دیا گیا تھا کہ اگر شادی کامیاب نہیں تھے وہ طلاق لے سکتے ہیں۔طلاق شدہ خواتین اور بیواؤں کو دوبارہ شادی کرنے کا حق دینےکی بھی بات کہی گئی تھی۔ساتھ میں اس بل میں بین ذات شادی کی اجازت اور کسی بھی ذات سے تعلق رکھنے والے بچوں کو گود لینے کی اجازت دی گئی تھی۔امبیڈکر نے بچوں کی شادی اور مسلم معاشرے میں خواتین کے ساتھ بد سلوکی کی مذمت کی تھی۔
امبیڈکر نے آئین میں آرٹیکل 370 (جو ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ فراہم کرتا ہے) کے ڈرافٹ کو تیار کرنے سے انکار کردیا تھا۔ان کا ماننا تھا کہ یہ تفریق پیدا کرتا ہے اور یہ قوم کے اتحاد و سالمیت کے اصولوں کے منافی ہے۔آخر میں آرٹیکل 370 کو جموں و کشمیرکے مہاراجہ ہری سنگھ کے سابق دیوان گوپال سوامی اینگر نے تیار کیا تھا۔
امبیڈکر کی سنہ 1935۔36(امریکہ اور یوروپ سے واپس کے بعد) میں لکھی جانے والی 20 صفحوں پر مشتمل خود نوشت سوانح عمری 'ویٹنگ فار ویزا' ایک ایسی کتاب ہے، جس میں انہوں نے اچھوت پن سے متعلق اپنے تجربات کے بارے میں لکھا ہے۔یہ کتاب کولمبیا یونیورسٹی میں درسی کتاب کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔
بابا صاحب امبیڈکر ذات پات سے آزاد ایک معاشرہ کے تشکیل دینے کا خواب رکھتے تھے۔ان کا مقصد بھارت کو ایک ایسا معاشرہ دینا تھا جہاں خواتین کو ان کا حق دیا جائے اور لوگوں کو برابری کی نظر سے دیکھا جائے۔ اور اسی مقصد کے لیے وہ پوری زندگی جدوجہد کرتے رہے۔ بھارت کی آئین کا معمار 06 دسمبر 1956 کو ابدی نیند سوگیا لیکن ملک و قوم کے لیے وہ کارنامہ انجام دے گیا جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔