ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کے بلوچ پورہ چوک علاقہ کے دولت گنج گول دروازہ سمیت متعدد علاقوں میں جانوروں کی ہڈیوں پر نقش و نگاری کرکے متعدد کھلونے اور قابل دید اشیاء بنائی جاتی تھیں۔ اس کاروبار سے جہاں ایک بڑی آبادی روزگار سے وابستہ تھی وہیں یہ کاروبار ماحول دوست بھی تھا۔
بازار میں آئے پلاسٹک کے کھلونے اور روزمرہ کے استعمال کے سامان ماحولیات کے لیے انتہائی خطرناک اور آلودگی میں اضافے کا باعث ہوتے ہیں۔ لیکن ہڈیوں سے بنے ہوئے سامان نہ صرف خوبصورت اور پائدار بلکہ ماحولیات کے تحفظ کے لئے بھی بہت اہم ہوتے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت نے لکھنؤ کے ان علاقوں کا جائزہ لیا جہاں پر کبھی یہ کارخانے ہوا کرتے تھے لیکن اب بیشتر علاقوں میں یہ کام متعدد وجوہات کی بناء پر بند ہوگیا ہے۔ موجودہ حالات کے پیش نظر یہ کاروبار آخری دور سے گزر رہا ہے، شہر میں نہ اس کے کاریگر بچے ہیں اور نہ ہی وافر مقدار میں ہڈیاں دستیاب ہیں، ان تمام مشکلات کے ساتھ یہ کاروبار موجودہ نفرت کی سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اب بازاروں میں ہڈیوں کے ایسے سامان کہیں فروخت نہیں کیے جاتے بلکہ انہیں دوسرے نام سے فروخت کیا جاتا ہے۔
عبد العزیز بتاتے ہیں کہ اب عوام کا نظریہ بدل گیا ہے، پہلے ہڈیوں کا سامان سن کر لوگ حیرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے لیکن اب نفرت کے نظریہ سے دیکھتے ہیں۔
بلوچ پورہ میں ہڈی سے متعدد سامان بنانے والے کارخانے کے مالک عبدالعزیز بتاتے ہیں کہ آج سے چالیس برس قبل یہ کام لکھنؤ میں شباب پر تھا، اس زمانے میں منافع کا سودا ہوا کرتا تھا، بڑی تعداد میں اس کے کاریگر موجود ہوا کرتے تھے لیکن آج کے حالات اس کے برعکس ہیں یہی وجہ ہے کہ متعدد علاقوں کے کارخانے بند ہوچکے ہیں۔ سلاٹر ہاؤسز کی ہڈیاں مہنگی ہیں اور وہ کمپنیوں کو فروخت کرتے ہیں۔ ہاتھ کے کاریگروں کو ہڈیاں جمع کرنے میں بھی سخت مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کام میں کاریگروں کے لیے مزدوری انتہائی معمولی ہے جس کی وجہ سے کاریگر دیگر پیشوں کی جانب راغب ہورہے ہیں، مزدوری مہنگائی کے سامنے کچھ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اب دوسرے کام میں بھی کاریگر دلچسپی لے رہے ہیں اور اس کام سے علاحدگی اختیار کرچکے ہیں۔
مزید پڑھیں:۔ ''تانگہ کی اہمیت ختم ہونے سے ہم اپنا کاروبار بدلنے پر مجبور''
انہوں نے مزید کہا کہ نئی نسل اس جانب توجہ نہیں دے رہی ہے۔ حکومت بھی اسے مسلسل نظر انداز کررہی ہے اور موجودہ فرقہ وارانہ ماحول کی وجہ سے یہ کاروبار شدید متاثر ہوا ہے، بازار میں اب اسے دوسرے نام سے فروخت کیا جاتا ہے۔ ہڈیاں لانے میں بھی کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سامان کے بنانے کی ترکیب یہ ہے کہ سب سے پہلے ہڈیوں کو کاٹتے ہیں، اس کے بعد مشینوں پر رگڑ کر مطلوب شکل و صورت میں تبدیل کرتے ہیں اس کے بعد دیگ میں رکھ کر چار سے پانچ گھنٹے تک ابالا جاتا ہے، اس کے بعد کیمیکل سے دھلائی کرنے کے بعد دھوپ میں سکھاتے ہیں، جس کے بعد اس کی بدبو ختم ہوتی ہے اور وہ لائق استعمال ہوتا ہے۔