کانگریس نے منگل کے روز حکومت پر منی پور میں 12 ایم ایل اے کو نااہل نہیں کر کے 'راج دھرم' ترک کرنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ بی جے پی ریاست میں مصنوعی اکثریت بنا کر اور غیر آئینی حکومت چلا کر جمہوریت کو مسخ کر رہی ہے۔
کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے کہا کہ 12 ممبران اسمبلی کو منافع کے عہدے کے معاملے میں نااہل قرار دیا جانا چاہئے تھا، لیکن آئینی حکام فیصلے نہیں لے رہے ہیں اور تاخیر کر رہے ہیں۔
انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا 'منی پور بی جے پی کے 12 ممبران اسمبلی کو منافع کے عہدے کے معاملے میں 2018 میں نااہل قرار دیا جانا چاہئے تھا۔ اب، ای سی آئی (الیکشن کمیشن) کا کہنا ہے کہ منی پور کے گورنر کو پہلے ہی اس سلسلے میں ہدایت دی جاچکی ہے لیکن ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ گورنر کے ذریعے بی جے پی کو تحفظ فراہم کرنا مکمل طور پر غیر آئینی ہے۔'
کانگریس کے ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ 2017 میں جن 12 ایم ایل اے نے پالا بدلا تھا، انہیں منی پور میں پارلیمانی سیکرٹری بنایا گیا تھا، لیکن بعد میں انہیں ہٹا دیا گیا، کیونکہ وہ منافع کے عہدوں پر تھے۔
انہوں نے کہا کہ ستمبر 2020 میں منی پور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی، رکن اسمبلی نا اہل نہیں قرار دیے گیے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ گورنر اور الیکشن کمیشن اس معاملے پر اپنے فیصلے میں تاخیر کر رہے ہیں۔
سنگھوی کے ساتھ منی پور کے سابق وزیر اعلی ایبوبی سنگھ اور پارٹی کے دیگر رہنما اور ایم ایل اے بھی تھے۔ سنگھوی نے کہا کہ بی جے پی 12 ایم ایل اے کے خلاف کارروائی نہیں کر جان بوجھ کر اور غیر آئینی تاخیر کر رہی ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ 2017 کانگریس کو واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی، لیکن مارچ 2017 میں ہارس ٹریڈنگ اور غلط طریقے سے 28 ارکان اسمبلی کی واضح اکثریت کو ایک مصنوعی اقلیت میں تبدیل کر دیا گیا اور بی جے پی نے اپنی حکومت تشکیل دی۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت بنانے کے فوراً بعد بی جے پی نے 12 اراکین اسمبلی کو انعام دیا، جنہوں نے پالا بدل دیا تھا، انہیں پارلیمانی سیکرٹری کے عہدے دیے گیے، لیکن کچھ ماہ کے بعد انہیں ہٹا دیا گیا کیونکہ انہیں احساس ہوا کہ یہ عہدے غیر قانونی تھے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ پارلیمانی یا اسمبلی سکریٹری کا عہدہ منافع کا عہدہ سمجھا جاتا ہے اور یہ ایک مستحکم اصول ہے۔
مزید پڑھیں:
مہاراشٹر اسمبلی میں ابو عاصم اعظمی نے مالیگاؤں بم دھماکہ معاملہ اٹھایا
انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ کے ستمبر 2020 کے فیصلے، جو سپریم کورٹ میں اپیل کے تحت ہے، کے ساڑھے پانچ ماہ بعد بھی گورنر نے فیصلہ نہیں لیا ہے اور الیکشن کمیشن نے بھی اس پر لمبے وقت تک فیصلہ نہیں لیا ہے۔