ETV Bharat / bharat

بابری مسجد کو مسمار کرنے کے بعد کس نے کیا کہا، ایک نظر

author img

By

Published : Nov 9, 2019, 8:13 AM IST

بابری مسجد کی انہدامی کارروائی میں ہندو سخت گیر تنظیم آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد سمیت دیگر تنظیموں کی معاونت کرتے ہوئے اس وقت کی فعال سیاسی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کا اہم رول رہا ہے۔

بابری مسجد کو مسمار کرنے کے بعد کس نے کیا کہا، ایک نظر

چھ دسمبر 1992 کو وشو ہندو پریشد اور دیگر دائیں بازو کی شدت پسند تنظیموں کے تقریباً ڈیڑھ لاکھ کارسیوکوں نے منصوبہ بند طریقے سے ایک خاص حکمت عملی کے تحت پر تشدد ریلی نکالی، جس کے سبب فسادات پھوٹ پڑے اور 16ویں صدی کی 489 برس قبل تعمیر شدہ مسجد کو شہید کر دیا گیا۔

مسجد کے انہدام میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی اس وقت کی اعلی قیادت ملوث تھیں جن میں قابل ذکر طور پر اترپردیش کے اس وقت کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ، بی جے پی کے سینیئر رہنما لال کرشن اڈوانی، اشوک سنگھل، ونے کٹیار، اوما بھارتی اور ساکشی مہارج شامل تھے۔

مختلف ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق مسجد پر حملہ ایک مہینے کی خفیہ تیاری کے بعد کیا گیا تھا اور اس خفیہ آپریشن کو ’رام جنم بھومی‘ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ منصوبہ ہندو تنظیموں سمیت سنگھ پریوار کے مختلف دھڑوں نے تیار کیا تھا۔ جس کی پوری اطلاع اس وقت کے وزیراعظم نرسمہا راؤ کو تھی تاہم، انہوں نے بابری مسجد کے تحفظ کے سلسلے میں کوئی خاص پیش رفت نہ کی۔

اس مقدمے کے ملزم سابق وزیراعلیٰ کلیان سنگھ نے ایک مرتبہ نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے ببانگ دہل یہ اعلان کیا تھا کہ 'اتر پردیش کے وزیراعلیٰ کے طور پر میں نے پولیس کو حکم دیا تھا کہ ایودھیا تحریک میں شامل رام بھکتوں پر گولیاں نہ چلائی جائیں، جو بابری مسجد کو منہدم کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ اس کی پوری ذمہ داری میں لیتا ہوں'۔

ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اوما بھارتی نے بھی ڈنکے کی چوٹ پر یہ تسلیم کیا تھا کہ ' یہ گائے، گنگا ،رام اور ترنگے کا ملک ہے، اگر ان کی بے عزتی ہوگی تو میں اس کے حق کا دفاع کروں گی'۔ اور انہوں نے مزید کہا تھا کہ ' مجھے اس بات کا فخر ہے کہ میں ایودھیا تحریک میں شامل تھی'۔

اس ضمن میں پارٹی کے سینیئر رہنما لال کرشن اڈوانی نے بھی سوم ناتھ سے ایودھیا تک رتھ یاترا نکالی تھی۔ جو کہ کافی متنازعہ رہی تھی اور جس کے نتیجے میں ملک کے کئی خطوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے۔

ہندو مذہبی رہنما ساکچھی مہاراج نے بھی اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ وہ ایودھیا تحریک میں شامل تھے، انہوں نے قبول کیا تھا ' یہ ثواب کا کام ہے، میں نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے،کوئی بھی طاقت یہاں مندر کی تعمیر کو نہیں روک سکتی'۔

اس سلسلے میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے اڈوانی، جوشی اور بھارتی کے خلاف 2017 میں مسجد کو مسمارکرنے کی مجرمانہ سازش کا الزام عائد کیا تھا۔ جس میں بھارتی کا کہنا تھا کہ ' وہ خود کو مجرم نہیں مانتی ہیں'۔

خصوصی عدالت کے علاوہ سپریم کورٹ نے اڈوانی،جوشی اور اوما بھارتی سمیت 12 لوگوں پر مجرمانہ سازش کا الزام عائد کیا تھا اور دو سال باقاعدگی کے ساتھ معاملے کی سماعت کا حکم دیا تھا۔ لیکن ان تمام سیاسی رہنماؤں کو عدالت نے ضمانت پر رہا کر دیا تھا اور آج یہ آزاد گھوم رہے ہیں۔

یہ اس ملک کا بہت بڑا المیہ ہے کہ تاریخی، مذہبی اور ثقافتی اہمیت کی حامل بابری مسجد کو دن کے اجالے میں بے خوف ہندو شدت پسند تنظیموں نے مسمار کر دیا اور وہ آج بھی آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔

چھ دسمبر 1992 کو وشو ہندو پریشد اور دیگر دائیں بازو کی شدت پسند تنظیموں کے تقریباً ڈیڑھ لاکھ کارسیوکوں نے منصوبہ بند طریقے سے ایک خاص حکمت عملی کے تحت پر تشدد ریلی نکالی، جس کے سبب فسادات پھوٹ پڑے اور 16ویں صدی کی 489 برس قبل تعمیر شدہ مسجد کو شہید کر دیا گیا۔

مسجد کے انہدام میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی اس وقت کی اعلی قیادت ملوث تھیں جن میں قابل ذکر طور پر اترپردیش کے اس وقت کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ، بی جے پی کے سینیئر رہنما لال کرشن اڈوانی، اشوک سنگھل، ونے کٹیار، اوما بھارتی اور ساکشی مہارج شامل تھے۔

مختلف ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق مسجد پر حملہ ایک مہینے کی خفیہ تیاری کے بعد کیا گیا تھا اور اس خفیہ آپریشن کو ’رام جنم بھومی‘ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ منصوبہ ہندو تنظیموں سمیت سنگھ پریوار کے مختلف دھڑوں نے تیار کیا تھا۔ جس کی پوری اطلاع اس وقت کے وزیراعظم نرسمہا راؤ کو تھی تاہم، انہوں نے بابری مسجد کے تحفظ کے سلسلے میں کوئی خاص پیش رفت نہ کی۔

اس مقدمے کے ملزم سابق وزیراعلیٰ کلیان سنگھ نے ایک مرتبہ نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے ببانگ دہل یہ اعلان کیا تھا کہ 'اتر پردیش کے وزیراعلیٰ کے طور پر میں نے پولیس کو حکم دیا تھا کہ ایودھیا تحریک میں شامل رام بھکتوں پر گولیاں نہ چلائی جائیں، جو بابری مسجد کو منہدم کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ اس کی پوری ذمہ داری میں لیتا ہوں'۔

ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اوما بھارتی نے بھی ڈنکے کی چوٹ پر یہ تسلیم کیا تھا کہ ' یہ گائے، گنگا ،رام اور ترنگے کا ملک ہے، اگر ان کی بے عزتی ہوگی تو میں اس کے حق کا دفاع کروں گی'۔ اور انہوں نے مزید کہا تھا کہ ' مجھے اس بات کا فخر ہے کہ میں ایودھیا تحریک میں شامل تھی'۔

اس ضمن میں پارٹی کے سینیئر رہنما لال کرشن اڈوانی نے بھی سوم ناتھ سے ایودھیا تک رتھ یاترا نکالی تھی۔ جو کہ کافی متنازعہ رہی تھی اور جس کے نتیجے میں ملک کے کئی خطوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے۔

ہندو مذہبی رہنما ساکچھی مہاراج نے بھی اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ وہ ایودھیا تحریک میں شامل تھے، انہوں نے قبول کیا تھا ' یہ ثواب کا کام ہے، میں نے کوئی گناہ نہیں کیا ہے،کوئی بھی طاقت یہاں مندر کی تعمیر کو نہیں روک سکتی'۔

اس سلسلے میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے اڈوانی، جوشی اور بھارتی کے خلاف 2017 میں مسجد کو مسمارکرنے کی مجرمانہ سازش کا الزام عائد کیا تھا۔ جس میں بھارتی کا کہنا تھا کہ ' وہ خود کو مجرم نہیں مانتی ہیں'۔

خصوصی عدالت کے علاوہ سپریم کورٹ نے اڈوانی،جوشی اور اوما بھارتی سمیت 12 لوگوں پر مجرمانہ سازش کا الزام عائد کیا تھا اور دو سال باقاعدگی کے ساتھ معاملے کی سماعت کا حکم دیا تھا۔ لیکن ان تمام سیاسی رہنماؤں کو عدالت نے ضمانت پر رہا کر دیا تھا اور آج یہ آزاد گھوم رہے ہیں۔

یہ اس ملک کا بہت بڑا المیہ ہے کہ تاریخی، مذہبی اور ثقافتی اہمیت کی حامل بابری مسجد کو دن کے اجالے میں بے خوف ہندو شدت پسند تنظیموں نے مسمار کر دیا اور وہ آج بھی آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔

Intro:Body:

eryery


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.